مقدمہ کے مختلف مراحل و طریقہ کار
مقدمہ کے مختلف مراحل و طریقہ کار
مقدمہ بازی کیلئے میدان میں اُترے ہر شخص کیلئے ضروری ہے کہ وہ عدالتی دائو پیچ کے ساتھ ساتھ مقدمہ کے مختلف مراحل سے بھی آگاہ ہو،یعنی اُسے علم ہو کہ دورانِ سماعت میرا مقدمہ کن کن مراحل سے گذرے گا اور یوں وہ مطمئن ہو کر اپنے کیس کی پیروی
کرتا رہے گا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک شخص نے کہیں جانا ہو اور اُسے پتا ہی نہ ہو کہ فاصلہ کتنا ہے اور روٹ کیا اختیار کرنا ہے تو وہ شخص جگہ جگہ سے راستہ پوچھے گا اور دورانِ سفر پریشان ہی رہے گا۔ اور اگر اُسے علم ہو کہ میرا سفر اتنے کلومیٹر ہے اور فلاں فلاں جگہ سے گذر کر میں منزل پر پہنچوں گا تو وہ اطمینان سے بغیر کسی پریشانی کے اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔
جیسا کہ شروع میں بتایا گیا ہے کہ مقدمات دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک فوجداری اور دوسرے دیوانی۔فوجداری مقدمات ’’ضابطہ فوجداری‘‘ کے تحت سماعت کئے جاتے ہیں اور دیوانی مقدمات ’’ضابطہ دیوانی‘‘ کے تحت۔دونوں طرح کے کیسوں کی سماعت کا طریقہء کار مختصراً درج ذیل عنوانات کے تحت مذکور ہے۔
مقدمہ بازی کیلئے میدان میں اُترے ہر شخص کیلئے ضروری ہے کہ وہ عدالتی دائو پیچ کے ساتھ ساتھ مقدمہ کے مختلف مراحل سے بھی آگاہ ہو،یعنی اُسے علم ہو کہ دورانِ سماعت میرا مقدمہ کن کن مراحل سے گذرے گا اور یوں وہ مطمئن ہو کر اپنے کیس کی پیروی
کرتا رہے گا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک شخص نے کہیں جانا ہو اور اُسے پتا ہی نہ ہو کہ فاصلہ کتنا ہے اور روٹ کیا اختیار کرنا ہے تو وہ شخص جگہ جگہ سے راستہ پوچھے گا اور دورانِ سفر پریشان ہی رہے گا۔ اور اگر اُسے علم ہو کہ میرا سفر اتنے کلومیٹر ہے اور فلاں فلاں جگہ سے گذر کر میں منزل پر پہنچوں گا تو وہ اطمینان سے بغیر کسی پریشانی کے اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔
جیسا کہ شروع میں بتایا گیا ہے کہ مقدمات دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک فوجداری اور دوسرے دیوانی۔فوجداری مقدمات ’’ضابطہ فوجداری‘‘ کے تحت سماعت کئے جاتے ہیں اور دیوانی مقدمات ’’ضابطہ دیوانی‘‘ کے تحت۔دونوں طرح کے کیسوں کی سماعت کا طریقہء کار مختصراً درج ذیل عنوانات کے تحت مذکور ہے۔
فوجداری مقدمات میں عدالتی طریقہءکار
دیوانی مقدمات میں عدالتی طریقہء کار
فوجداری مقدمات میں عدالتی طریقہء کار
کوئی بھی جرم ہونے کے بعد متاثرہ فریق کے پاس دو راستے ہوتے ہیں ، ایک خود ہی عدالت میں جا کر کیس دائر کر دے یا مقدمہ کا پرچہ (ایف آئی آر)درج کروا لے۔ پرچہ درج ہونے پر پولیس مقدمہ کی تفتیش کر تی ہے، ملزم کے بے گناہ ثابت ہونے پر مقدمہ کی اخراج رپورٹ مرتب کی جاتی ہے اور اگر ملزم جرم میں ملوث پایا جائے تو پولیس مقدمہ کا چالان عدالت کو بھیج دیتی ہے۔ یعنی مقدمہ فیصلہ کیلئے عدالت میں آ جاتا ہے۔اگر کوئی شخص پولیس کی طرف سے مقدمہ خارج کرنے کی رپورٹ سے مطمئن نہ ہو تو بھی متاثرہ شخص عدالت میں کیس دائر کر سکتا ہے۔ عدالت میں کیس دائر کرنے کو استغاثہ دائر کرنا کہا جاتا ہے۔عدالت میں کیس پولیس چالان کے ذریعے آئے یا استغاثہ کے ذریعے، دونوں صورتوں میں عدالت ملزم کو بلاتی ہے،اور اُس پر لگائے گئے الزامات کی تفصیل سے اُسے آگاہ کیا جاتا ہے اسے فردِ جرم لگانا کہا جاتا ہے۔اس کے بعد مستغیث مقدمہ سے اپنے گواہ پیش کرنے کیلئے کہا جاتا ہے۔مستغیث خود اور اپنے گواہان کی شہادت قلمبند کرواتا ہے ساتھ ہی تفتیشی افسر اور دیگر پولیس ملازمین بھی گواہی دیتے ہیں۔(اگر پولیس نے ملزم کو گناہ گار قرار دیا ہو تو وہ استغاثہ کی گواہ کے طور پر پیش ہوتی ہے اور اگر پولیس نے پرچہ خارج کر دیا ہو تو پولیس عدالتی گواہ کے طور پر پیش ہوتی ہے) اسی گواہی کے دوران گواہان اپنی گواہی سے متعلقہ دستاویزات کے بارے میں بھی بتاتے ہیں اور ایسی تمام دستاویزات کو بھی عدالتی فائل میں نمبر لگا کر شامل کر لیا جاتا ہے، تمام گواہان پر ملزم؍ملزمان کا وکیل جرح کرتا ہے، جس کے بعد ملزم کو شہادت کے بارے میں سوالات کئے جاتے ہیں اور پھر اگر ملزم چاہے تواُسے اپنی صفائی کے گواہ اور دستاویزی شہادت پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ صفائی کے گواہوں پر استغاثہ کا وکیل جرح کرتا ہے اور پھر آخر میں دونوں طرف سے وکلاء کے دلائل سن کر جج ملزم؍ملزمان کی سزا ؍ بریت کا فیصلہ سناتا ہے۔ آخری دلائل سے قبل اگر کوئی فریق مزید شہادت (زبانی ؍دستاویزی)دینا چاہے تو عدالت کی اجازت سے وہ شہادت بھی دی جا سکتی ہے۔
دیوانی مقدمات میں عدالتی طریقہء کار
سول یا دیوانی مقدمہ کو دعویٰ کہا جاتا ہے، دعویٰ دائر کرنے والے شخص کو مدعی کہا جاتا ہے اور جس کے خلاف دعویٰ دائر ہو اسے مدعاعلیہ کہتے ہیں۔ مدعی کی طرف سے دعویٰ دائر ہونے کے بعد عدالت مدعا علیہ کو بلواتی ہے جسے عدالتی زبان میں طلبی کہا جاتا ہے، طلبی کیلئے عدالت مدعا علیہ کو نوٹس، سمن بھجواتی ہے، اگر وہ نہ آئے تو عدالتی بلاوے کا حکم اس کے گھر یا کسی نمایاں جگہ پر چسپاں کردیا جاتا ہے اور اگر وہ شخص پھر بھی نہ آئے تو عدالت اخبار میں اشتہار دے کر مدعا علیہ کو دعویٰ کی دائرگی کے بارے میں مطلع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ان تمام طریقوں کے باوجود اگر مدعا علیہ عدالت میں پیش نہ ہو تو اُس کے خلاف یکطرفہ فیصلہ سنا دیا جاتا ہے۔ اگر مدعا علیہ عدالت میں حاضر ہو جائے تو اُسے دعویٰ کا جواب داخل کرنے کا حکم دیا جاتا ہے، جواب دعویٰ داخل ہونے کے بعد عدالت کچھ نکات کا تعین کرکے اُن پر شہادت طلب کرتی ہے تا کہ درست فیصلہ تک پہنچا جا سکے۔ اِس مرحلے کو وضعگی تنقیحات یا اِشو فریمنگ کہا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں یہ بھی تعین ہوتا ہے کہ کس بات کو کون سا فریق ثابت کرے گا۔ اِس کے بعد مدعی سے اپنی زبانی شہادت پیش کرنے کا کہاجاتا ہے اور پھر مدعی کو دستاویزی شہادت پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ مدعی کی شہادت مکمل ہونے کے بعدمدعا علیہ کو بھی اسی طرح اپنے موقف کی تائید میں زبانی و دستاویزی شہادت کا موقع ملتا ہے۔ دونوں فریقین کی طرف سے شہادت مکمل ہونے کے بعد اُن کے وکیل آخری دلائل پیش کرتے ہیں جن کو سننے کے بعد جج دعویٰ کا فیصلہ کرتا ہے۔ فوجداری مقدمات کی طرح دیوانی مقدمات میں بھی آخری دلائل سے قبل اگر کوئی فریق مزید شہادت (زبانی ؍دستاویزی)دینا چاہے تو عدالت کی اجازت سے وہ شہادت بھی دی جا سکتی ہے۔بعض دعویٰ جات پر فیصلہ صادر ہونے کے بعد اُن فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے علیحدہ سے درخواست بھی دائر کرنا پڑتی ہے۔
Comments
Post a Comment