مشورہ کس سے اور کیسے کیا جائے؟
اپنے دماغ پر زور ڈالو تو تمھیں ضرور کوئی نہ کوئی تدبیر سوجھ جائے گی
مشورہ کس سے اور کیسے کیا جائے؟
اپنے معاملات کو عدالت میں لانے سے پہلے کسی قابل وکیل کے ساتھ مشاورت کریں۔ عدالت میں کیس لڑنے والے وکلاء تو کافی سارے ہیں مگر درست مشورہ دینے والے وکلاء کم ہیں لہٰذا شروع میں ہی (بوقت مشورہ )زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے مقدمہ کے بارے میں کم از کم تین قانونی ماہرین سے مشورہ کریں۔ اور اس طرح مقدمہ کے تمام پہلو سامنے آ جائیں گے جس سے ایک درست فیصلہ تک پہنچنے میں مدد ملے گی اور ساتھ ہی یہ بات بھی واضع ہو جائے گی کہ کوئی وکیل کہیں ذاتی غرض کیلئے غلط مشورہ تو نہیں دے رہا۔ چونکہ لوگ جب مشورہ کرتے ہیں تو اکثر وکیل صرف اپنی فیس کو ذہن میں رکھتے ہوئے لوگوں کو مقدمہ بازی میں جھونک دیتے ہیں۔ سچے اور حق پر مبنی مقدمات محض اس وجہ سے ہار جاتے ہیں کہ ان کے آغاز میں مناسب احتیاط اور تیاری نہیں کی جاتی۔جتنا بڑا اور اہم کیس ہواتنی ہی زیادہ احتیاط اور تیاری ضروری ہوتی ہے، یہاں احتیاط اور تیاری سے مراد مناسب ہوم ورک ہے یعنی مقدمہ شروع کرنے سے پہلے اسے ہر پہلو (حالات و واقعات کے حوالے سے اور قانون کے حوالے سے) سے دیکھ لیا جائے اور اس طرح کیس کا ممکنہ نتیجہ بھی سامنے آ جاتا ہے، اور دورانِ سماعت بھی آسانی رہتی ہے۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے طور پر جج سے بات کر سکتے ہیں اور اپنا کیس خود لڑ لیں گے ایسے لوگ بھی نقصان اٹھاتے ہیں کیونکہ جج صاحبان کے کام کرنے کیلئے ایک عدالتی طریقہ کار بنایا گیا ہے اور جج اس پر عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔کبھی کبھار اپنے طور پر عدالت میں بات کرنے والے شخص کا کسی چھوٹے موٹے معاملے میں تُکا لگ بھی جاتا ہے لیکن یاد رہے کہ اندھے کے پائوں کے نیچے بٹیر آ جانے سے اندھا شکاری نہیں بن جاتا۔
آج جدید دور کی سہولیات کی وجہ سے ملک کے کسی بھی وکیل سے گھر بیٹھے باآسانی مشورہ کیا جا سکتا ہے (تاہم یہ بات ذہن میں رہے کہ عدالت میں مقدمہ کیلئے وکیل اُسی کچہری سے لیں جہاں پر مقدمہ زیرِسماعت ہو) کبھی کسی اناڑی کے ساتھ مشورہ نہ کریں۔کوشش کریں کہ عدالت میں مقدمہ لڑنے کیلئے اور مقدمہ کے بارے میں مشورہ کرنے کیلئے وکیل علیحدہ علیحدہ ہوں۔ کیونکہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وکیل محض فیس کے حصول کی غرض سے لوگوں کو غیر ضروری طور پر مقدمہ بازی میں جھونک دیتے ہیں۔ مشاورت اس حوالے سے بھی ضروری ہے کہ تمام مقدمات یا معاملات کا حل عدالت میں ہی نہیں ہوتا بلکہ کچھ تنازعات یا معاملات عدالت سے باہر کم اخراجات اور کم وقت میں بہتر طور پر حل ہو سکتے ہیں۔اور یہ بھی بہت ضروری ہے کہ جونہی کوئی قانونی مسئلہ پیدا ہو بلا تاخیر قابل وکلاء کے ساتھ مشاورت کریں۔ قانونی معاملات میں تاخیر سے اکثر نقصان ہوتا ہے ۔ شروع میں کم وقت، کم اخراجات اور سہولت کے ساتھ قانونی مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔ ایک سیانے وکیل کا کہنا ہے کہ قانونی مسائل بیماریوں کی طرح ہوتے ہیں جن کا بر وقت حل نہ کیا جائے تو ان سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔قانون کی ایک بہت مشہور ضرب المثل ہے،
’’قانون جاگنے والے کا ساتھ دیتا ہے سونے والوں کا نہیں‘‘
میرے پاس ایک دوست کی مثال ہے، اس کے خلاف اکثر و بیشتر کوئی نہ کوئی مقدمہ درج ہو جاتا تھاجو عام دیہاتی رنجش کے تحت درج کروایا گیا ہوتا اور عام طور پر ہوتا بھی جھوٹا ، اس کو لا پرواہی کی پیدائشی بیماری تھی۔ کچھ سیاسی اثرورسوخ بھی تھا اس لئے کوئی نہ پوچھتا، مگر کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کوئی تھانیدار اس طرح کا بھی آ جاتا جو کسی دبائو کو خاطر میں نہ لاتا اور بھائی صاحب کی عزت افزائی کر کے حوالات میں بند کر دیتا اور پھر اُسے یاد آتا کہ میرے خلاف تو مقدمہ ہے اور اسے ختم کروانا چاہیے اور پھر پانچ کی جگہ پچاس خرچ کرتا۔بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہی کام جو پہلے کرنا تھا بعد میں کیا، اور بونس میں اضافی اخراجات اور ذلت و رسوائی بھی ملی۔یعنی وقت کی نمازیں اور بے وقت کی ٹکریں۔یا یوں کہہ لیں کہ، وقت کا ایک ٹانکہ بے وقت کے نو ٹانکوں سے بچاتا ہے۔
مشورہ کس سے اور کیسے کیا جائے؟
اپنے معاملات کو عدالت میں لانے سے پہلے کسی قابل وکیل کے ساتھ مشاورت کریں۔ عدالت میں کیس لڑنے والے وکلاء تو کافی سارے ہیں مگر درست مشورہ دینے والے وکلاء کم ہیں لہٰذا شروع میں ہی (بوقت مشورہ )زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے مقدمہ کے بارے میں کم از کم تین قانونی ماہرین سے مشورہ کریں۔ اور اس طرح مقدمہ کے تمام پہلو سامنے آ جائیں گے جس سے ایک درست فیصلہ تک پہنچنے میں مدد ملے گی اور ساتھ ہی یہ بات بھی واضع ہو جائے گی کہ کوئی وکیل کہیں ذاتی غرض کیلئے غلط مشورہ تو نہیں دے رہا۔ چونکہ لوگ جب مشورہ کرتے ہیں تو اکثر وکیل صرف اپنی فیس کو ذہن میں رکھتے ہوئے لوگوں کو مقدمہ بازی میں جھونک دیتے ہیں۔ سچے اور حق پر مبنی مقدمات محض اس وجہ سے ہار جاتے ہیں کہ ان کے آغاز میں مناسب احتیاط اور تیاری نہیں کی جاتی۔جتنا بڑا اور اہم کیس ہواتنی ہی زیادہ احتیاط اور تیاری ضروری ہوتی ہے، یہاں احتیاط اور تیاری سے مراد مناسب ہوم ورک ہے یعنی مقدمہ شروع کرنے سے پہلے اسے ہر پہلو (حالات و واقعات کے حوالے سے اور قانون کے حوالے سے) سے دیکھ لیا جائے اور اس طرح کیس کا ممکنہ نتیجہ بھی سامنے آ جاتا ہے، اور دورانِ سماعت بھی آسانی رہتی ہے۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے طور پر جج سے بات کر سکتے ہیں اور اپنا کیس خود لڑ لیں گے ایسے لوگ بھی نقصان اٹھاتے ہیں کیونکہ جج صاحبان کے کام کرنے کیلئے ایک عدالتی طریقہ کار بنایا گیا ہے اور جج اس پر عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔کبھی کبھار اپنے طور پر عدالت میں بات کرنے والے شخص کا کسی چھوٹے موٹے معاملے میں تُکا لگ بھی جاتا ہے لیکن یاد رہے کہ اندھے کے پائوں کے نیچے بٹیر آ جانے سے اندھا شکاری نہیں بن جاتا۔
آج جدید دور کی سہولیات کی وجہ سے ملک کے کسی بھی وکیل سے گھر بیٹھے باآسانی مشورہ کیا جا سکتا ہے (تاہم یہ بات ذہن میں رہے کہ عدالت میں مقدمہ کیلئے وکیل اُسی کچہری سے لیں جہاں پر مقدمہ زیرِسماعت ہو) کبھی کسی اناڑی کے ساتھ مشورہ نہ کریں۔کوشش کریں کہ عدالت میں مقدمہ لڑنے کیلئے اور مقدمہ کے بارے میں مشورہ کرنے کیلئے وکیل علیحدہ علیحدہ ہوں۔ کیونکہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وکیل محض فیس کے حصول کی غرض سے لوگوں کو غیر ضروری طور پر مقدمہ بازی میں جھونک دیتے ہیں۔ مشاورت اس حوالے سے بھی ضروری ہے کہ تمام مقدمات یا معاملات کا حل عدالت میں ہی نہیں ہوتا بلکہ کچھ تنازعات یا معاملات عدالت سے باہر کم اخراجات اور کم وقت میں بہتر طور پر حل ہو سکتے ہیں۔اور یہ بھی بہت ضروری ہے کہ جونہی کوئی قانونی مسئلہ پیدا ہو بلا تاخیر قابل وکلاء کے ساتھ مشاورت کریں۔ قانونی معاملات میں تاخیر سے اکثر نقصان ہوتا ہے ۔ شروع میں کم وقت، کم اخراجات اور سہولت کے ساتھ قانونی مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔ ایک سیانے وکیل کا کہنا ہے کہ قانونی مسائل بیماریوں کی طرح ہوتے ہیں جن کا بر وقت حل نہ کیا جائے تو ان سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔قانون کی ایک بہت مشہور ضرب المثل ہے،
’’قانون جاگنے والے کا ساتھ دیتا ہے سونے والوں کا نہیں‘‘
میرے پاس ایک دوست کی مثال ہے، اس کے خلاف اکثر و بیشتر کوئی نہ کوئی مقدمہ درج ہو جاتا تھاجو عام دیہاتی رنجش کے تحت درج کروایا گیا ہوتا اور عام طور پر ہوتا بھی جھوٹا ، اس کو لا پرواہی کی پیدائشی بیماری تھی۔ کچھ سیاسی اثرورسوخ بھی تھا اس لئے کوئی نہ پوچھتا، مگر کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کوئی تھانیدار اس طرح کا بھی آ جاتا جو کسی دبائو کو خاطر میں نہ لاتا اور بھائی صاحب کی عزت افزائی کر کے حوالات میں بند کر دیتا اور پھر اُسے یاد آتا کہ میرے خلاف تو مقدمہ ہے اور اسے ختم کروانا چاہیے اور پھر پانچ کی جگہ پچاس خرچ کرتا۔بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہی کام جو پہلے کرنا تھا بعد میں کیا، اور بونس میں اضافی اخراجات اور ذلت و رسوائی بھی ملی۔یعنی وقت کی نمازیں اور بے وقت کی ٹکریں۔یا یوں کہہ لیں کہ، وقت کا ایک ٹانکہ بے وقت کے نو ٹانکوں سے بچاتا ہے۔
Comments
Post a Comment