مقدمہ بازی سے بچا کیسے جا ئے
مقدمہ بازی سے بچا کیسے جا ئے
اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے ایک بات واضع کرنا بہت ضروری ہے کہ مقدمہ بازی سے بچنے کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں کہ آپ وکیل سے مشورہ نہ کریں۔ جب بھی آپ کو کسی مسئلے کا سامنا ہو فوری طور پر کسی دیانتدار وکیل سے مشورہ کریں بلکہ دو تین وکلاء سے مشورہ کریں اور ساتھ ہی ان وکلاء سے یہ بھی ضرور پوچھیں کہ میں مقدمہ بازی سے دور کیسے رہ سکتا ہوں؟ مجھے مقدمہ بازی کی طرف آنا چاہیے یا نہیں؟پھر ان مشوروں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریںکہ آپ کیلئے کیا بہتر ہے۔ یعنی وکیل سے مشورہ کرنا اور مقدمہ بازی شروع کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔
مقدمہ بازی سے دور رہنا ہی آپ کیلئے زیادہ بہتر ہے۔ اگلے کچھ صفحات میں یہی بات واضع کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ عدالت سے دور رہنا آپ کیلئے کس طرح مفید ہے اور مقدمہ بازی سے دور رہنے کی ہر ممکن کوشش آپ نے خود کرنی ہے۔ کیونکہ مقدمہ بازی کی صورت میں بہت ساری تکالیف کا سامنا دونوں فریقین کو کرنا پڑتا ہے، ناشتہ ، کھانا ڈسٹرب، سردی گرمی کا سامنا، سفر کی صعوبتیں، آرام دہ بستر سے محرومی، وقت اور پیسے کا ضیاع، یعنی کافی ساری تکالیف اُٹھانے کے بعد مقدمہ کی پیروی ممکن ہوتی ہے۔اس لئے عدالتوں میں صرف اسی صورت میں آئیں اگر اس کے بغیر کوئی اور چارہ نہ ہو۔ یعنی جب آپ کو محسوس ہو کہ عدالت سے رجوع کیے بغیر آپ کو انصاف نہیں ملے گا، یا جب کوئی آپ کے خلاف مقدمہ بازی شروع کر دے اس صورت میں بھی آپ کے پاس اور کوئی راہ نہیں رہتی۔ بعض لوگ شوقیہ مقدمہ باز ہوتے ہیں اور اپنے مخالفین کو تنگ کرنے کی غرض سے بھی مقدمہ بازی شروع کر دیتے ہیں، لیکن ہوتا یہ ہے کہ مخالف کو تکلیف پہنچانے سے پہلے خود زیادہ تنگ اور خوار ہوتے ہیں
طوطیا من موتیا توں ایس گلی نہ جا ایس گلی دے جٹ برے، لیندے پھائیاں پا
جب میں نے اس موضوع کیلئے مواد کو رف صورت میں اکٹھا کرنے کے بعد ترتیب دینا شروع کیا تو یہ دیکھ کے حیرانی ہوئی کہ مواد کا بیشتر حصہ احتیاطی اپنے دوست کو اپنی خالص ترین محبت دے دو مگر اپنا راز نہ بتائو
تدابیر پرہی مشتمل ہے۔ اِس موضوع پہ بات کا مقصدبھی آپ کو چند ایسی احتیاطی تدابیر بتاناہے جن پر عمل کرنے سے مقدمہ بازی خود ہی آپ سے دور رہے گی۔ ایک لحاظ سے آپ اسے نصیحت کا پلندہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اِن باتوں سے کچھ لوگ اتفاق نہ کریں لیکن مقدمہ بازی میں پھنسے ہوئے لوگوں کو دیکھیں یا خدانخواستہ کبھی مقدمہ بازی میں خود کا آنا ہو تو معلوم ہو گا کہ اِن تلخ باتوں میں کتنی حقیقت ہے۔
ہم اِن احتیاطی تدابیر کو عدالتوں میں پیش ہونے والے مقدمات کی اقسام کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔عدالتوں میں پیش ہونے والے مقدمات دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک لین دین اور معاشرتی ذمہ داریوں سے متعلق اور دوسرے جرائم سے متعلق۔ لین دین اور معاشرتی ذمہ داریوںسے متعلق مقدمات کو قانونی زبان میں سول یا دیوانی مقدمات کہا جاتا ہے۔ ان مقدمات میں عدالتیں ذمہ داریوں کا تعین کر کے ذمہ دار فریق سے اُن ذمہ داریوں کو پورا کرواتی ہیں، اور اگر کوئی شخص عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرے تو عدالت اُسے قید یا جرمانے کی سزا بھی دیتی ہے۔ جب کہ دوسری قسم کے کیس جرائم سے متعلق ہیں جنہیں فوجداری مقدمات کہا جاتا ہے۔ ان میں عدالتیں جرم ثابت ہونے کے بعد مجرم کو جیل میں قید کرنے کی سزا دیتی ہیں اور ساتھ ہی جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا جاتا ہے۔بعض معمولی جرائم میں صرف جرمانہ ہی کیا جاتا ہے۔
اگر آپ کبھی عدالتوں میں جا کر مشاہدہ کریں تو یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ عدالتوں میں چل رہے مقدمات کی بہت بڑی تعداد انتہائی قریبی لوگوں، جگری دوستوں اور خونی رشتہ داروں کے درمیان ہے۔اور شعراء کے ساتھ بھی غالباً اپنوں نے ہی ہاتھ کیا ہے جو یہ فرما گئے ہیں
غیروں کی نفرتوں کا گلہ ہم نے کب کیا
اپنوں کی شفقتوں کے ستائے ہوئے ہیں ہم
کسی دشمن نے یہ عزت مجھے اب تک نہیں بخشی
ہمیشہ دوست ہی کا ہاتھ پہنچا ہے گریباں تک
دوستوں سے ہم نے وہ صدمے اُٹھائے جان پر
دل سے دشمن کی عداوت کا گلہ جاتا رہا
لہٰذا اپنوں سے ہی احتیاط کی زیادہ ضرورت ہے ۔ایک دفعہ کاروباری فیملی کے ایک شخص نے کسی پر اعتماد کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے بچوں کو کاروبار میں لانے سے پہلے ٹریننگ میں یہ بات بتاتے ہیں کہ’’اعتماد کرنا بہت اچھی بات ہے‘‘، ’’اعتماد کرنا بہت اچھی بات ہے‘‘، ’’اعتماد کرنا بہت اچھی بات ہے‘‘ لیکن ’’اعتماد نہ کرنا سب سے اچھی بات ہے‘‘، دھوکہ کھاتا کون ہے؟ وہی جو اعتماد کرتا ہے ۔اِسی طرح رشتہ داری اور دوستی پر بات کرتے ہوئے ایک دانشمند نے فرمایا کہ دنیا میں آپ کے صرف دو رشتہ دار ہیں، اور وہ ہیں آپ کے والدین، اور وہی آپ کے بہترین دوست بھی ہیں لہٰذا کوشش کریں کہ تمام لوگوں (حتیٰ کہ سگے بھائی، بہن ، کزن، قریبی دوست) کے ساتھ اپنے تمام معاملات کوقانونی تقاضوںکے مطابق تحریر میں لائیں۔ اعتماد کرنے کے حوالے سے دو بھائیوں کے درمیان ہونے والے ایک جھگڑے کا ذکر یہاں بے جا نہ ہو گا۔ ایک گائوں میں دو بھائی مل کر کاشتکاری کرتے تھے، چھوٹا بھائی زیادہ تر جسمانی محنت کا کام کرتا تھا اور بڑا بھائی زیادہ تر انتظامی معاملات سنبھالتا تھا اور خاصا چلتا پرزہ تھا، دونوں بھائیوں میں طے تھا کہ بچت کے پیسوں سے وہ زرعی زمین خرید لیا کریں گے۔ چھوٹے بھائی نے بڑے سے کہا کہ زمین تم اپنے نام سے خرید تے رہو اور بعد میں ہم برابر بانٹ لیں گے۔ اور اس طرح اُنہوں نے مل کر دو ایکڑ زمین خریدی۔ کچھ عرصہ بعد دونوں بھائیوں نے اپنا اپنا کام علیحدہ کرنے کا پروگرام بنایا اور جب جائیداد کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو چھوٹے نے کہا کہ جو دو ایکڑ زمیں ہم نے مل کر خریدی ہے اس میں سے بھی مجھے ایک ایکڑ زمین دو۔ بڑے بھائی نے انکار کر دیا، چھوٹے بھائی نے برادری کی پنچائت بلائی، پنچائت نے بڑے بھائی سے پوچھا کہ جب تم دونوں نے مل کر زمین خریدی ہے تو تم اپنے چھوٹے سگے بھائی کو اس کا حصہ کیوں نہیں دیتے؟ تو بڑے بھائی نے جو جواب دیاوہ رشتوں اور دوستیوں کے حوالے سے ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ بڑے بھائی نے پنچائت کو دو ٹوک جواب دیا کہ میں اسے زمین اس لیے نہیں دے رہا کیوں کہ میں بے ایمان ہو گیا ہوں۔
دنیا ڈھلتی چھائوں ہے، اگر یہ تمھارے لئے باقی بھی رہے تو تم اس کیلئے باقی نہیں رہو گے
یہ درست ہے کہ تمام دوست، رشتہ دار ایسے نہیں ہوتے مگر یہ بھی تو نہیں پتا کہ کون ایسا نکل آئے لہٰذا خاص طور پر ایسے معاملات جن میں بھاری مالیت کی جائیداد یا بہت زیادہ رقم کا لین دین ہوقابل وکیل کی مدد اور راہنمائی کے بغیرعمل میں نہ لائیں ۔اس حوالے سے قرآن کا حکم بھی یہی ہے۔
اے ایمان والو! جب تم ایک مقرر مدت تک کسی دین کا لین دین کرو تو اسے لکھ لواور چاہیے کہ تمھارے درمیان کوئی لکھنے والا ٹھیک ٹھیک لکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جب خرید و فروخت کرو تو گواہ کر لو۔۔۔۔۔۔ سورۃ البقرۃ آیت نمبر 182
(مندرجہ بالا آیت کافی لمبی ہے۔ لین دین اور تحریر لکھنے کے حوالے سے مکمل راہنمائی کیلئے پوری آیت دیکھیں)
اگر آپ نے اس نسخے پر عمل کر لیا تو آپ کے معاملات کے بگڑنے یا مقدمہ بازی کی طرف جانے کے امکانات اسی فیصد کم ہو جاتے ہیں ۔اچھے کردار ، اچھی اور مثبت سوچ کے حامل لوگوں کو ایسے معاملات میں زیادہ بھگتنا پڑتا ہے لہٰذا اچھی سوچ کے ساتھ ساتھ اچھی طرح سے احتیاط بھی ضرور کریں کیوں کہ دھوکہ اسی کے ساتھ ہوتا ہے جو اعتماد کرتا ہے، درج ذیل گیت اس بات کی کیا خوب وضاحت کرتا ہے
’’اکثر یہ ہوتا ہے پیار میں دھوکہ ہوتا ہے اعتبار میں‘‘
اِس حوالے سے ایک دوست کا تجربہ ہے کہ اس نے ایک شخص کو کاروبارکیلئے بھاری رقم دی اور رقم دیتے وقت قانونی تقاضوں کے مطابق اُس کی تحریر تیار کی ، اتفاقاً کام شروع نہ ہو سکا تو اُس شخص نے خود آ کے رقم واپس کی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ رقم کی ادائیگی کے بغیر اسکی جان نہیں چھوٹے گی۔ایسے ہی درست طور پر لین دین کو تحریری شکل نہ دینے پر بہت سے معاملات کو بہت زیادہ الجھتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔معاملات کو تحریر میں لانے پر کچھ اضافی اخراجات اور محنت تو ضرور لگتی ہے مگر اِس کے فوائد بھی بہت زیادہ ملتے ہیں۔
اسی طرح کاروباری طبقہ اور معاشرہ کے عام افراد کے درمیان قرض کا لین دین بھی ایک معمول ہے۔ادھار لین دین پر بھی بہت سے تنازعات جنم لیتے ہیں اور یہی تنازعات سول مقدمہ بازی کا باعث بنتے ہیں بلکہ کئی دفعہ جھگڑا بڑھنے کی صورت میں تنازعہ فوجداری رنگ اختیار کر لیتا ہے اور نوبت مار پیٹ اور قتل کرنے تک جا پہنچتی ہے اور فریقین اکثر سنگین نقصان سے دوچار ہوتے ہیں۔نیز مقدمات کے آخر میں اگر حساب کیا جائے تو دونوں فریقین بھاری مالی نقصان اٹھا چکے ہوتے ہیں۔ قرض لینے دینے کے حوالے دے ایک ضرب المثل بہت مشہور ہے جو آپ نے یقیناً سُن رکھی ہو گی کہ’’قرض دینا بہت دلیری کا کام ہے اور قرض واپس وصول کرنا بہت عقلمندی کا‘‘ لہٰذا اگر دلیری کر چکے ہیں تو پھر عقلمندی سے بھی ضرور کام لیں۔اکثر دوست قرض دے کر جھگڑا خرید لیتے ہیں۔ کئی دفعہ قرض لینے والے حضرات بھی معاملے کو جھگڑے تک لانے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن پھر بھی قرض دینے والے دوست کو چاہیے کہ دل کو بڑا رکھے، اور یہی فرمانِ الٰہی بھی ہے۔
اور اگر قرضدار تنگی والا ہے تو اُسے مہلت دو ، آسانی تک۔ اور قرض اُس پر بالکل چھوڑ دینا تمھارے لئے اور بھلا ہے اگر جانو! سورۃ البقرۃ آیت نمبر 180
ایسے ہی فیملی لائف سے متعلق مقدمات کی ایک کثیر تعداد سول مقدمات کی صورت میں عدالتوں میں زیر سماعت ہے،مثلاً میاں بیوی کے تنازعات، بیوی بچوں کا نان و نفقہ، بچوں کی تحویل، وراثت کی تقسیم یا جائداد وغیرہ سے متعلق معاملات۔ فیملی کے معاملات میں بھی کوشش کریں کہ جھگڑا برادری یا پنچائت کی سطح پر ہی طے پا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ عدالتوں میں آنے کے بعداکثرو بیشتر خاندانی معاملات مزید بگڑجاتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی قرآن اور مذہبی تعلیمات سے رہنمائی زیادہ سودمند ہوگی۔
اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو، پھر اگر وہ اپنے دل کی خوشی سے مہر میں سے تمہیں کچھ دے دیں تو اسے کھائو سورۃ النساء آیت نمبر 4
اور یتیموں کو اُن کے مال دو، اور ستھرے کے بدلے گندا نہ لو، اور اُن کے مال اپنے مالوں میں ملا کر نہ کھا جائو، بیشک یہ بڑا گناہ ہے۔ سورۃ النساء آیت نمبر 2
اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھائو۔ سورۃ ۴ النساء آیت نمبر ۲۹
وہ جو یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں، وہ تو اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں، اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے میں جائیں گے۔ سورۃ النساء آیت نمبر 10
اور بے عقلوں کو ان کے مال نہ دو،جو تمھارے پاس ہیں، جن کو اللہ نے تمھاری بسر اوقات کیا ہے، اور انہیں اس میں سے کھلائو اور پہنائواور ان سے اچھی بات کہو۔ سورۃ النساء آیت نمبر 5
سورۃ النساء ہی کی آیات 7, 8 میںماں باپ کے چھوڑے ہوئے ترکہ میں مردوں ، عورتوں کے حصے کا تذکرہ ہے ، انہی آیات میں رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں کو بھی اس میں سے کچھ دینے کا ذکر ہے۔ اسی طرح آیات 11,12 میں متوفی والدین اور دیگر مرحومین کے ترکہ میں وصیت، ورثاء اور اُن کے حصوں کے بارے میں تفصیلی احکامات بیان کیے گئے ہیں۔اسی سورۃ میں میاں بیوی کے درمیان شکوک و شبہات اور تنازعات کا حل بھی موجود ہے۔ کوشش کی جائے کہ فیملی معاملات انہی آیات کی روشنی میں طے پا جائیں۔
اگر آپ کے پاس بھاری مالیت کی جائیداد ہے جس کا آپ نے انتظام کرنا ہوتا ہے یا بڑے پیمانے پر کاروبار کر رہے ہیں تو کوشش کریں کہ مستقل بنیادوں پر کسی اچھے وکیل کی خدمات ضرور حاصل کریں تا کہ مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کو کم کیا جا سکے اور آپ اپنے کاروبار یا دیگر معاملات پر پوری توجہ دے سکیں۔ اگر مندرجہ بالا چند نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے معاملات طے کیے جائیں تو بگاڑ کے امکانات نہ صرف بہت ہی کم ہو جائیں گے بلکہ مقدمہ بازی کی صورت میں حق اور سچ کی فتح بھی یقینی ہو گی۔
Comments
Post a Comment