سچ کی فتح کیسے ممکن ہے؟

اور فرمائو کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا، بیشک باطل کو مٹنا ہی تھا۔ سورۃ ۱۷ بنی اسرائیل آیت ۸۱
سچ کی فتح کیسے ممکن ہے؟
ایک  بات ابتداء میں ہی آپ سے عرض کرنا چاہوں گا کہ مقدمے کو مکمل پرسکون ہو کر لڑیں ،  ایک کھیل سمجھ کر، اس یقین کے ساتھ کہ فتح سچ کی ہی ہو گی۔ ذاتِ حق پر اعتماد رکھتے ہوئے۔
کارسازِ ما، بہ فکرِ کارِ ما فکرِ ما، در کارِ ما، آزارِ ما
یعنی میرا کارساز (اللہ) میرے کام کی فکر میں ہے، اور اپنے کام کے بارے میں میری فکر میرے لیے محض پریشانی کا باعث ہے
مایوس بالکل نہ ہوں کہ مایوسی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے۔ بصورتِ دیگر آپ کو اضافی پریشانی کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ اس حوالے سے حضرت علی المرتضیٰ کا درج ذیل قول مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے۔
مصیبت میں گھبرانا، مصیبت کو دگنا کر دیتا ہے اور مصیبت کا سامنا کرنے سے مصیبت آدھی رہ جاتی ہے
اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا اور اگر وہ تمھیں چھوڑ دے تو ایسا کون ہے جو تمھاری مدد کرے۔ سورۃ ۳ اٰل عمران آیت ۱۶۰
اِن صفحات میں کچھ ایسے قانونی اقدامات تجویز کئے گئے ہیں جن پر عمل کرنے سے آپ کے معاملات بگاڑ کی طرف جائیں گے ہی نہیں اور اگر کبھی نوبت مقدمہ بازی تک پہنچی بھی تو انشااللہ فتح حق اور سچ کی ہی ہوگی۔ ایک بات تو یہ یاد رکھنے والی ہے کہ سچ کو شکست نہیں دی جا سکتی جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے
 ’’ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیںتو وہ اس کا بھیجا نکال دیتا ہے جبھی وہ مٹ کر رہ جاتا ہے‘‘(سورۃ الانبیاء آیت 18)
اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ،’’ ظلم کی رات خواہ کتنی ہی لمبی ہو، سویرا ضرور ہوتا ہے‘‘
لیکن نظر ہم کو اُلٹ آتا ہے، کہ جھوٹ نے سچ کا بھرکس نکالا ہوا ہے، سویرا دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سچ کی طرف صحیح طریقے سے رجوع نہیں کرتے۔ اِسے آسان زبان میں یوں سمجھ لیں کہ ہر کام کرنے کا ایک خاص طریقہ ہے اور اگر ہم اُس طریقے سے ہٹ کر وہ کام کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ کام ہی غلط ہو جائے گا یا پھر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ مطلب یہ کہ عدالتی طریقہ کار کے مطابق اپنے معاملات ہینڈل کریں گے تو کامیابی ہو گی۔ یہ بات زیادہ بہتر واضع اگلے موضوعات کے مطالعے سے ہوگی۔  یاد رہے کہ بھینس کی دُم سے دودھ نہیں نکلے گا۔ اِس کی وضاحت ایک سادہ سی مثال سے یوں کی جا سکتی ہے کہ اگر کسی شخص نے لاہور سے کراچی جانا ہو، اور وہ ڈرائیونگ سیٹ پہ ایک اندھے آدمی کو بٹھا کر پشاور کی طرف چل پڑے تو کراچی کیسے پہنچے گا؟ اور پھر حادثہ ہونے پر کہے کہ یہ تو سارا سڑک بنانے والے کا قصور ہے جو میں اس انجام کو پہنچا ہوں تو آپ اسے کیا کہیں گے۔ عدالتی معاملات میں بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال ہے۔یعنی لوگ درست سمت میں مکمل تیاری کے ساتھ چلتے نہیں جس کے نتیجہ میں کیس سچا ہونے کے باوجود ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مقدمات بھی بے جا طوالت کا شکاررہتے ہیں،  یہ بھی درست ہے کہ عدالتی نظام میں بہت سی خرابیاں ہیں، کئی جج بھی بدعنوان ہیں، وکلاء، پولیس اور دیگر سرکاری ادارے انصاف کے حوالے سے مکمل طور پر ٹھیک کام نہیں کر رہے۔ لیکن ان ساری خرابیوں کے باوجود اگر لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا تو اس میں کافی سارا قصور لوگوں کا اپنا بھی ہے اور وہ قصور یہ ہے کہ اکثر لوگ درست موقف کے ساتھ عدالت نہیں آتے، اپنے سچے کیس میں جھوٹ کی آمیزش کر کے سارا کیس مشکوک کر دیتے ہیں اورپھر یہ فضول گلہ کہ عدالتیں ٹھیک نہیں، جج بے ایمان ہیں، وکیل غلط کرتے ہیں۔
 کامیابی کی سیڑھی پر قدم قدم ناکامی ہوتی ہے
غم نہ کھائو اُس پر جو ہاتھ سے جائے اور خوش نہ ہو اس پر جو تم کو دیا جائے۔ پارا ۲۷ سورۃ ۵۷ الحدید آیت ۲۳

Comments

Popular posts from this blog

مشورہ کس سے اور کیسے کیا جائے؟

مقدمہ کے مختلف مراحل و طریقہ کار

تعارف