ایکسپرٹ کی اہمیت، تلاش اور مشورہ
ایکسپرٹ کی اہمیت، تلاش اور مشورہ
نقشہ نویس کے پاس بیٹھا ایک شخص اُس سے کہہ رہا تھا کہ تم چند لائنیں لگانے کے بہت زیادہ پیسے مانگ رہے ہو، جس کے جواب میںنقشہ نویس نے کہاچند لائنیں ہی تو لگانی تھیں تم خود لگا لیتے یا کسی سے بھی لگوا لیتے میرے پاس آنے کی کیا ضرورت تھی۔ اب وہ شخص بغلیں جھانکنے لگا۔ جب بھی کسی شخص کو کوئی قانونی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے دوستوں یا عزیز و اقارب کو بتا کر پوچھتا ہے کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ اب اگر دوست عزیز سمجھدار ہے تو وہ فوراً کہتا ہے کہ کسی وکیل سے مشورہ کر لیتے ہیں۔ مگر زیادہ تر لوگ اپنے پاس سے ہی کوئی حل تجویر کر دیتے ہیں اب یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص گردے کا علاج کروانے ویلڈر کے پاس پہنچ جائے۔ یا موٹر مکینک سے کہے کہ میری آنکھوں میں لینز ڈال دو۔ لوگوں کی سادگی (یا حماقت کہہ لیں) کا عالم یہ ہے کہ عدالتی معاملات کے بارے میں ان لوگوں کے ساتھ مشورے شروع کر دیتے ہیں جن کا عدالت اور قانون کے متعلق علم صفر ہے اور آگے سے وہ لوگ بھی اس طرح مشوروں اور ہدایات سے نوازتے ہیں جیسے سینئر ترین وکلاء نے قانون ان ہی سے پڑھا ہو۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں شاعر نے کہا ہے
بندھی ہے بھینس کھونٹے سے، نہ کوئی گائے رکھتے ہیں
مگر ہم دودھ کے بارے میں اپنی رائے رکھتے ہیں
(شاعر: ظفر اقبال)
یہاں تک بھی بات ہو تو بندہ سوچتا ہے کہ اگرچہ اِس کے پاس گائے بھینس نہیں ہے تو کیا ہوا،دودھ تواستعمال کرتا ہی ہوگا لہٰذا دودھ کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتا ہی ہو گا۔ مزید خرابی تو اس وقت ہوتی ہے جب ایک ایسا شخص جس کے باپ دادا نے بھی بھینس نہیں پالی، وہ چارے کی کاشت کے طریقے بتانا شروع کر دے یا جانوروں کی خوراک اور علاج معالجے کیلئے مشورے دینے لگے۔ جب ایسے لوگوں سے مشورہ ہوگا توخود سوچ لیں کہ نتیجہ کیا نکلنا چاہیے۔میرا ایک کلائنٹ جب بھی آتایہی کہتا، مجھے لوگ کہتے ہیں تمھارے کیس کا یہ ہوگا، اب تم اس طرح کر لو تو بہتر ہے، کبھی کہتا میرا ایک دوست کہہ رہا ہے یہ کیس تین سال چلے گا، تنگ آ کر ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ کیا جو لوگ تم کو مشورے دیتے ہیں، وہ قانون جانتے ہیں؟ تو اس نے جواباً کہا نہیں، میں نے پھر پوچھا کہ کیا کبھی اپنی گاڑی مرمت کروانے کیلئے کسی ڈاکٹر کے پاس لے کے گئے ہو؟ میری بات اس کی سمجھ میں آ گئی اور پھر اس نے لوگوں کی باتوں پر دھیان دینا چھوڑ دیا۔
اناڑی سے مشورے لینے کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ کسی سے سناتھا جو یوں ہے کہ ایک شخص کی گائے بیمار ہو گئی تو اس نے اپنے دوست سے پوچھا یار پچھلے سال جب تمہاری گائے بیمار ہوئی تھی تو تم نے اپنی گائے کو کیا دوا دی تھی؟دوست نے جواب میں بتایا کہ میں نے اپنی گائے کو پٹرول کا ایک لیٹر پلایا تھا، اس شخص نے بھی جا کر اپنی گائے کوایک لیٹر پٹرول پلا دیا۔ تھوڑی دیر بعد بھاگا بھاگا واپس اپنے دوست کے پاس پہنچا اور کہنے لگا کہ پٹرول پلانے سے میری تو گائے ہی مر گئی ہے۔ جواباً دوست نے کہا کہ میری بھی مر گئی تھی۔ غیر پیشہ ور افراد سے اپنے معاملات کے بارے میں مشورے لینے کے نتائج کچھ ایسے ہی برآمد ہوتے ہیں۔
ایک شخص کو ہیپاٹائیٹس سی کا مرض لاحق ہو گیا، ایک روز وہ اپنے ایک چچا اور والد کے ایک دوست کے پاس بیٹھا تھا کہ اُس کی بیماری کا ذکر چل نکلا، اُس کا چچا جو کہ ایک زمیندار تھا، کہنے لگا تم صبح خالی پیٹ انار کا جوس پیا کرو اور مزید کسی دوائی کی کوئی ضرورت نہیں، پھر اس کے والد کے دوست (جو کہ ایک ریٹائرڈ حوالدار تھے)نے اپنا حکمت بھرا مشورہ دیا کہ تم زیادہ سے زیادہ گنے کا رس استعمال کرو، اُس شخص نے ان دونوں افراد کو بہت ہی سمجھدارانہ جواب دیا۔ اپنے چچا سے اس نے کہا کہ آپ زمیندار ہیں، آپ نے تمام عمر کاشتکاری کا کام کیا ہے، آپ فصلوں کی بیماری اور اُن پر سپرے سے متعلق کوئی مشورہ دیں تو وہ درست ہو سکتا ہے مگر انسانی جسم کے بارے میں آپ کا مشورہ قطعاً قابلِ عمل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اُس نے اپنے والد کے دوست ریٹائرڈ حوالدار صاحب سے کہا کہ آپ نے اپنی تمام عمر فوج میں گذاری ہے، آپ فوجی ڈسپلن یا اسلحہ کے بارے میں کوئی بات کریں تو اُس میں وزن ہو گا مگر ہیپاٹائیٹس سی کے بارے میں آپ کے خیالات کی کوئی اہمیت نہیں۔میں نے اپنی بیماری سے متعلق آپ دونوں کے کسی مشورہ پر عمل نہیں کرنا۔ میں کسی ماہر ڈاکٹر سے علاج کروائوں گا چاہے نتیجہ کچھ بھی ہو۔ یعنی یہ دیکھنا بہت ضروری کہ جو شخص مشورہ دے رہا ہے کیا اس میں متعلقہ معاملہ کو سمجھنے کی اہلیت بھی ہے یا نہیں۔کہیں یہ نہ ہو کہ ایک اندھا دوسرے اندھے کے پیچھے چلے اور پھر دونوں کھائی میں ہوں۔
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ایک دیوار کی تعمیر کیلئے تو اچھی طرح سوچ بچار کرتے ہیں اور تین چار معماروں سے صلاح بھی لیتے ہیں مگر لاکھوں روپے کا کیس بغیر ماہرانہ رائے اور مشورہ کے آناً فاناً اور بے احتیاطی سے شروع کر دیتے ہیں اور بعد میں الزام عدالتوں پر دھرتے ہیں۔ لوگ جسمانی بیماریوں کے علاج کیلئے اچھے ڈاکٹروں سے رجوع کرتے ہیں، کار، موٹر سائیکل کی مرمت کیلئے قابل مکینک تلاش کرتے ہیں، مکان بنوانے کیلئے مستری کا انتظام کرتے ہیںمگر دوسروں کے معاملات میں انکی خواہش کے بغیر دخل دینا حماقت ہے
عدالتی معاملات میں اکثر لاپرواہی کرتے ہیں جس کے نتائج سالوں عدالتوں کے چکر لگا کر بھگتتے ہیںاور نقصان الگ ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ قانونی مسائل کے حل کیلئے بھی لازمی طور پر اچھی شہرت کے مالک قابل وکیل کی تلاش کریں ورنہ عدالتیں ہوں گی، وکیل ہوں گے اور کاغذات کے ایک تھیلے کے ساتھ آپ کبھی اس کے در، کبھی اُس کے در، کبھی دربدر!
یعنی ایک ایکسپرٹ کا کام ہم خود نہیں کر سکتے۔اور وکالت کا کام اس لحاظ سے بھی زیادہ مشکل ہے کہ اس میں ہر کیس کے حوالے سے خصوصی تیاری اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ہر کیس کے اپنے حقائق اور حالات و واقعات ہوتے ہیں۔اور ایک وکیل چاہے جتنا بھی اچھا قانونی علم رکھتا ہو جب تک وہ ان حالات و واقعات پر پوری توجہ نہ دے کیس جیتا نہیں جا سکتا۔ لہٰذا کوشش کریں کہ اپنے کیس کے مطابق قابل ماہرِقانون کا انتخاب کریں۔
نقشہ نویس کے پاس بیٹھا ایک شخص اُس سے کہہ رہا تھا کہ تم چند لائنیں لگانے کے بہت زیادہ پیسے مانگ رہے ہو، جس کے جواب میںنقشہ نویس نے کہاچند لائنیں ہی تو لگانی تھیں تم خود لگا لیتے یا کسی سے بھی لگوا لیتے میرے پاس آنے کی کیا ضرورت تھی۔ اب وہ شخص بغلیں جھانکنے لگا۔ جب بھی کسی شخص کو کوئی قانونی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے دوستوں یا عزیز و اقارب کو بتا کر پوچھتا ہے کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ اب اگر دوست عزیز سمجھدار ہے تو وہ فوراً کہتا ہے کہ کسی وکیل سے مشورہ کر لیتے ہیں۔ مگر زیادہ تر لوگ اپنے پاس سے ہی کوئی حل تجویر کر دیتے ہیں اب یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص گردے کا علاج کروانے ویلڈر کے پاس پہنچ جائے۔ یا موٹر مکینک سے کہے کہ میری آنکھوں میں لینز ڈال دو۔ لوگوں کی سادگی (یا حماقت کہہ لیں) کا عالم یہ ہے کہ عدالتی معاملات کے بارے میں ان لوگوں کے ساتھ مشورے شروع کر دیتے ہیں جن کا عدالت اور قانون کے متعلق علم صفر ہے اور آگے سے وہ لوگ بھی اس طرح مشوروں اور ہدایات سے نوازتے ہیں جیسے سینئر ترین وکلاء نے قانون ان ہی سے پڑھا ہو۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں شاعر نے کہا ہے
بندھی ہے بھینس کھونٹے سے، نہ کوئی گائے رکھتے ہیں
مگر ہم دودھ کے بارے میں اپنی رائے رکھتے ہیں
(شاعر: ظفر اقبال)
یہاں تک بھی بات ہو تو بندہ سوچتا ہے کہ اگرچہ اِس کے پاس گائے بھینس نہیں ہے تو کیا ہوا،دودھ تواستعمال کرتا ہی ہوگا لہٰذا دودھ کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتا ہی ہو گا۔ مزید خرابی تو اس وقت ہوتی ہے جب ایک ایسا شخص جس کے باپ دادا نے بھی بھینس نہیں پالی، وہ چارے کی کاشت کے طریقے بتانا شروع کر دے یا جانوروں کی خوراک اور علاج معالجے کیلئے مشورے دینے لگے۔ جب ایسے لوگوں سے مشورہ ہوگا توخود سوچ لیں کہ نتیجہ کیا نکلنا چاہیے۔میرا ایک کلائنٹ جب بھی آتایہی کہتا، مجھے لوگ کہتے ہیں تمھارے کیس کا یہ ہوگا، اب تم اس طرح کر لو تو بہتر ہے، کبھی کہتا میرا ایک دوست کہہ رہا ہے یہ کیس تین سال چلے گا، تنگ آ کر ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ کیا جو لوگ تم کو مشورے دیتے ہیں، وہ قانون جانتے ہیں؟ تو اس نے جواباً کہا نہیں، میں نے پھر پوچھا کہ کیا کبھی اپنی گاڑی مرمت کروانے کیلئے کسی ڈاکٹر کے پاس لے کے گئے ہو؟ میری بات اس کی سمجھ میں آ گئی اور پھر اس نے لوگوں کی باتوں پر دھیان دینا چھوڑ دیا۔
اناڑی سے مشورے لینے کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ کسی سے سناتھا جو یوں ہے کہ ایک شخص کی گائے بیمار ہو گئی تو اس نے اپنے دوست سے پوچھا یار پچھلے سال جب تمہاری گائے بیمار ہوئی تھی تو تم نے اپنی گائے کو کیا دوا دی تھی؟دوست نے جواب میں بتایا کہ میں نے اپنی گائے کو پٹرول کا ایک لیٹر پلایا تھا، اس شخص نے بھی جا کر اپنی گائے کوایک لیٹر پٹرول پلا دیا۔ تھوڑی دیر بعد بھاگا بھاگا واپس اپنے دوست کے پاس پہنچا اور کہنے لگا کہ پٹرول پلانے سے میری تو گائے ہی مر گئی ہے۔ جواباً دوست نے کہا کہ میری بھی مر گئی تھی۔ غیر پیشہ ور افراد سے اپنے معاملات کے بارے میں مشورے لینے کے نتائج کچھ ایسے ہی برآمد ہوتے ہیں۔
ایک شخص کو ہیپاٹائیٹس سی کا مرض لاحق ہو گیا، ایک روز وہ اپنے ایک چچا اور والد کے ایک دوست کے پاس بیٹھا تھا کہ اُس کی بیماری کا ذکر چل نکلا، اُس کا چچا جو کہ ایک زمیندار تھا، کہنے لگا تم صبح خالی پیٹ انار کا جوس پیا کرو اور مزید کسی دوائی کی کوئی ضرورت نہیں، پھر اس کے والد کے دوست (جو کہ ایک ریٹائرڈ حوالدار تھے)نے اپنا حکمت بھرا مشورہ دیا کہ تم زیادہ سے زیادہ گنے کا رس استعمال کرو، اُس شخص نے ان دونوں افراد کو بہت ہی سمجھدارانہ جواب دیا۔ اپنے چچا سے اس نے کہا کہ آپ زمیندار ہیں، آپ نے تمام عمر کاشتکاری کا کام کیا ہے، آپ فصلوں کی بیماری اور اُن پر سپرے سے متعلق کوئی مشورہ دیں تو وہ درست ہو سکتا ہے مگر انسانی جسم کے بارے میں آپ کا مشورہ قطعاً قابلِ عمل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اُس نے اپنے والد کے دوست ریٹائرڈ حوالدار صاحب سے کہا کہ آپ نے اپنی تمام عمر فوج میں گذاری ہے، آپ فوجی ڈسپلن یا اسلحہ کے بارے میں کوئی بات کریں تو اُس میں وزن ہو گا مگر ہیپاٹائیٹس سی کے بارے میں آپ کے خیالات کی کوئی اہمیت نہیں۔میں نے اپنی بیماری سے متعلق آپ دونوں کے کسی مشورہ پر عمل نہیں کرنا۔ میں کسی ماہر ڈاکٹر سے علاج کروائوں گا چاہے نتیجہ کچھ بھی ہو۔ یعنی یہ دیکھنا بہت ضروری کہ جو شخص مشورہ دے رہا ہے کیا اس میں متعلقہ معاملہ کو سمجھنے کی اہلیت بھی ہے یا نہیں۔کہیں یہ نہ ہو کہ ایک اندھا دوسرے اندھے کے پیچھے چلے اور پھر دونوں کھائی میں ہوں۔
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ایک دیوار کی تعمیر کیلئے تو اچھی طرح سوچ بچار کرتے ہیں اور تین چار معماروں سے صلاح بھی لیتے ہیں مگر لاکھوں روپے کا کیس بغیر ماہرانہ رائے اور مشورہ کے آناً فاناً اور بے احتیاطی سے شروع کر دیتے ہیں اور بعد میں الزام عدالتوں پر دھرتے ہیں۔ لوگ جسمانی بیماریوں کے علاج کیلئے اچھے ڈاکٹروں سے رجوع کرتے ہیں، کار، موٹر سائیکل کی مرمت کیلئے قابل مکینک تلاش کرتے ہیں، مکان بنوانے کیلئے مستری کا انتظام کرتے ہیںمگر دوسروں کے معاملات میں انکی خواہش کے بغیر دخل دینا حماقت ہے
عدالتی معاملات میں اکثر لاپرواہی کرتے ہیں جس کے نتائج سالوں عدالتوں کے چکر لگا کر بھگتتے ہیںاور نقصان الگ ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ قانونی مسائل کے حل کیلئے بھی لازمی طور پر اچھی شہرت کے مالک قابل وکیل کی تلاش کریں ورنہ عدالتیں ہوں گی، وکیل ہوں گے اور کاغذات کے ایک تھیلے کے ساتھ آپ کبھی اس کے در، کبھی اُس کے در، کبھی دربدر!
یعنی ایک ایکسپرٹ کا کام ہم خود نہیں کر سکتے۔اور وکالت کا کام اس لحاظ سے بھی زیادہ مشکل ہے کہ اس میں ہر کیس کے حوالے سے خصوصی تیاری اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ہر کیس کے اپنے حقائق اور حالات و واقعات ہوتے ہیں۔اور ایک وکیل چاہے جتنا بھی اچھا قانونی علم رکھتا ہو جب تک وہ ان حالات و واقعات پر پوری توجہ نہ دے کیس جیتا نہیں جا سکتا۔ لہٰذا کوشش کریں کہ اپنے کیس کے مطابق قابل ماہرِقانون کا انتخاب کریں۔
Comments
Post a Comment