فیصلوں میں تاخیر کی اصل وجوہات
فیصلوں میں تاخیر کی اصل وجوہات
عدالتواں میں دو طرح کا قانون استعمال ہوتا ہے، ایک قانون تو فریقینِ مقدمہ پر لاگو ہوتا ہے یعنی فریقین کے معاملات سے متعلقہ قانون، اوردوسرا قانون عدالتوں کیلئے ہے یعنی جب کیس عدالت کے پاس آئے گا تو عدالت اُس کی سماعت کیسے کرے گی، اس قانون کو عدالتی طریقہ ء کار کا قانون کہہ لیں، قانونی زبان میں اسے ضابطہ جاتی قانون کہا جاتا ہے۔ اس قانون کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔ یہ دو طرح کا ہے، ضابطہ دیوانی اور ضابطہ فوجداری۔ عدالتی فیصلوں میں تاخیر کی بہت بڑی وجہ ضابطہ جاتی قانون کے نقائص ہیں۔ اور ان نقائص کا فائدہ اُٹھا کر وکلاء مقدمات کو لٹکائے رکھتے ہیں۔ غیر ذمہ دار اور نالائق وکیل کیسز وقت پر تیار نہیں کرتے اور پھر اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی طرح کیس آئندہ تاریخ کیلئے ملتوی ہو جائے، اپنے کلائنٹ کو مختلف اُلٹی سیدھی وجوہات سنا کر مطمئن کر دیتے ہیں اور اگلی تاریخ پر پھر وہی وطیرہ۔ وکیل کی نالائقی دو طرح کی ہو سکتی ہے، ایک تو یہ کہ وکیل سرے سے محنت ہی نہ کرنے کی عادی ہو، اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ایسے وکیلوں سے بچنے کی کوشش خود کریں، اس کا طریقہ وکیل کے انتخاب والے باب میں بیان کیا گیا ہے۔ دوسری نالائقی کسی خاص مقدمے کے حوالے سے نالائقی ہے۔ مطلب یہ کہ وکیل قابل اور محنتی تو ہے مگر کسی خاص مقدمے کو لڑنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے دل کا ڈاکٹر (ہارٹ سپیشلسٹ)ہڈیوں سے متعلقہ امراض کا علاج اُتنا اچھا نہیں کر سکتا جتنا اچھا علاج ہڈیوں کا ڈاکٹر (آرتھوپیڈک ) کرے گا۔ وکالت میں بھی ڈاکٹری کی طرح مختلف شاخیں ہیں، تمام وکلاء ہر طرح کے کیس ایک ہی جیسی قابلیت سے نہیں لڑ سکتے۔ مثلاً فوجداری وکیل، ٹیکس کے کیسز اچھی طرح نہیں کر سکتا، اسی طرح ایسا وکیل جو ٹیکس کے قانون پر مہارت رکھتا ہے وہ ملازمتوں سے متعلقہ کیسز میں ماہر نہیں ہوتا۔ جب بھی ایسی صورتحال ہو جائے تو بھی کیس غیر ضروری طور پر التواء کا شکار ہو جاتا ہے۔ ا س کا حل یہ ہے کہ اپنے مقدمہ کی قسم کے مطابق قابل وکیل کا انتخاب کریں۔اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جج صاحبان وکلاء کو بلوا بلوا کر رہ جاتے ہیں کہ آجائیں اور مقدمہ میں کوئی پیش رفت ہو سکے مگر وہ پیش نہیں ہوتے اور اگر چاروناچار آ ہی جائیں تو مختلف بہانوں سے تاریخ مانگنے لگ جاتے ہیں۔قابل وکلاء بھی مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کیلئے برابر کے ذمہ دار ہیں، قابل وکیلوں کا معاملہ کچھ اِس طرح کا ہے، ’’میں دیر کرتا نہیں، دیر ہو جاتی ہے‘‘۔
جب تک قدرت اور طاقت ہو، احسان کرو، کیونکہ انسان کی قدرت ہمیشہ نہیں رہتی
قابل وکیلوں کے پاس مقدمات کی اس قدر بھرمار ہوتی ہے کہ وہ اپنے تمام مقدمات میں صحیح طور پر پیش ہی نہیں ہو سکتے، نہ اچھی طرح سے مقدمات تیار کر پاتے ہیں، نتیجتاً وہ بھی چاہتے ہیں کہ مقدمات آئندہ تاریخ کیلئے ملتوی ہو جائیں۔ اور اگلی تاریخ پر پھر یہی مسئلہ۔ ایک دفعہ اعلیٰ عدلیہ نے جوڈیشل پالیسی نافذ کی اور حکم دیا کہ تمام پرانے مقدمات جلد از جلد نمٹائے جائیں جس پر نچلی عدالتوں نے سائلان پر دبائو بڑھایا کہ اپنے اپنے کیسز میں کاروائی کو آگے بڑھانے میں مدد دیں، جلد پیش ہوں اور اپنے وکیلوں کو بھی لائیں،ساتھ ہی تاریخیں دینے سے انکار کر دیا۔ سائلان نے اپنے اپنے وکیلوں کا سر کھانا شروع کیا کہ جلدی عدالت چلیں ورنہ جج ہمارے کیس خارج کر دیں گے، جس کا حل وکیلوں نے یہ نکالا کہ ہڑتال کرنی شروع کر دی تاکہ اعلیٰ عدالت اپنا حکم واپس لے۔ اور یہ ہڑتال کروانے کیلئے قابل وکلاء ہی پیش پیش تھے کیونکہ انہی کے پاس زیادہ مقدمات تھے اور ان پر ہی عدالتوں اور سائلان کی طرف سے دبائو بھی زیادہ تھا۔ ان ہڑتالوں کے باوجود کچھ نہ کچھ کام ہوتا رہا اور کافی سارے پرانے کیس نمٹ گئے، اسی طرح 2012 میں اعلیٰ عدلیہ نے پھر جوڈیشل پالیسی نافذ کی اور جو پرانے مقدمات سابقہ پالیسی میں رہ گئے تھے ان کو نمٹانے کا حکم دیا۔ اور ہدائت کی کہ پرانے کیسز کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے ۔ اب پھر قابل وکلاء پر پریشر بڑھا اور انہوں نے ہڑتال کروانی شروع کر دی۔ اور اس پالیسی کو ناکام بنانے کیلئے اور بھی کئی طرح کے حربے اختیار کیے۔مطلب یہ کہ عدالتوں کی کوشش کے باوجود ہڑتالی کلچر نے مقدمات کو جلد فیصلوں تک نہ پہنچنے دیا۔جوڈیشل پالیسی کے خلاف ہڑتالوں کے علاوہ بھی وکیلوں میں ایک ہڑتالی کلچر فروغ پا چکا ہے اور وکلاء آئے روز کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر ہڑتال کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہوتی رہتی ہے۔اِس کے علاوہ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کی وجہ وکلاء کا کیس تیار نہ کرنا ہے۔ تیاری نہ ہونے کہ وجہ سے وکیل جب عدالت جانے سے کتراتے ہیں تو مجھے اپنا سکول کا دور یاد آ جاتا ہے، صبح والد صاحب کان سے پکڑ کر اُٹھاتے، میں کاہلی سے پائوں گھسیٹ گھسیٹ کر تیاری کر رہا ہوتا تو والد صاحب پوچھتے کہ کیا تکلیف ہے تو میں رونی صورت بنا کے کہتا کہ طبعیت خراب ہے ، آگے سے جواب ملتا کہ جلدی تیاری کرو، ہر حال میں تمہیں سکول جانا پڑے گا۔روتا دھوتا سکول کیلئے نکلا تو سارے رستے یہی دعا لب پر رہتی کہ یا اللہ ! ماسٹر صاحب چھٹی پر ہوںتا کہ پٹائی سے بچ جائوں (کیوں کہ سبق تو یاد نہیں کیا) سکول میں دعا کے وقت ماسٹر صاحب کی صورت دکھائی دیتے ہی مولوی صاحب کی یاد کرائی ہوئی آیات کا دل ہی دل میں ورد شروع ہو جاتا اور ساتھ ہی ایک نئی دعا لبوں پر مچلنے لگتی، یا اللہ! کلاس کے وقت ہیڈ ماسٹر استاد صاحب کو بلا لے یا استاد کو کوئی ایسا ضروری کام پڑے کہ کلاس شروع ہونے سے پہلے ہی چلا جائے۔ نالائق طلباء کی طرح نالائق وکیل بھی دن گذارنے کیلئے کچھ ایسے ہی حربے اختیار کرتے نظر آتے ہیں
سول مقدمات کرنے والے ایک وکیل صاحب نے ایک فوجداری مقدمہ میں گواہان کو منحرف کروانے میں ہی کئی تاریخیں گذار دیں کیوں کہ وہ بنیادی طور پر سول وکیل تھے اور فوجداری طریقہء کار کو صحیح طور پر نہیں سمجھتے تھے۔حالانکہ یہ چند لمحوں
کا کام تھا۔
ایک مقدمہ میں شہادت لکھی جانا تھی، وکیل صاحب تیاری نہ ہونے کہ وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہو رہے تھے۔ جج صاحب نے جب بلوایا تو وکیل صاحب نے اپنے سائل سے کہا کہ جج کو بتائو کہ میں شادی پر گیا ہوا ہوں، جج صاحب کو پتا چل گیا کہ وکیل صاحب بہانے بازی سے کام لے رہے ہیں، اُنہوں نے ہنستے ہوئے فریق مقدمہ سے کہا کہ جائو اپنے وکیل سے کہو کہ عدالت آ جائے شہادت نہیں کرواتے میں تاریخ دے دیتا ہوں عدالت میں تو پیش ہو جائے۔
میں نے دیکھا ہے کہ لوگ اپنے وکیلوں کو عدالت لے جانے کیلئے اُن کی منتیں کر رہے ہوتے ہیں اور وکیل صاحبان کہہ دیتے ہیں تم چلو میں آ رہا ہوں،۔ ایک بار دیکھا کہ دو لڑکے عدالتوں میں کھڑے تھے اور ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ اگر عدالت میں جا کر ہم نے خود ہی بھونکنا ہوتا ہے تو وکیل کو فیس دینے کی کیا ضرورت تھی۔ (وکلاء دوستوں کیلئے شاید یہ شرم کی بات ہے یا ۔۔۔۔)
اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔سورۃ ۴ النساء آیت ۵۸
Comments
Post a Comment