ججوں کے خوف زدہ ہونے کی وجہ سے فیصلوں میں تاخیر
اور ناپو ، تو پورا ناپو، اور برابر ترازو سے تولو، یہ بہتر ہے اور اس کا انجام اچھا ہے۔ سورۃ ۱۷ بنی اسرائیل آیت ۳۵
ججوں کے خوف زدہ ہونے کی وجہ سے فیصلوں میں تاخیر
مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کے حوالے سے ایک اہم عنصر ججوں کا وکلاء سے خوف زدہ ہونا بھی ہے۔تمام تو نہیں مگر ججوں کی اکثریت وکلاء کی ایک مخصوص جماعت کی بدمعاشیوں کے باعث خوف زدہ بھی رہتی ہے جس کی وجہ سے بھی مقدمات تاخیر کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ چونکہ وکلاء مقامی ہوتے ہیں اور عددی اکثریت بھی رکھتے ہیںاور ججوں کو ذلیل و خوار کرنے سے بھی نہیں کتراتے اِس لئے جج اپنی عزت کے خوف سے بھی دلیرانہ فیصلے کرنے سے ہچکچاتے ہیں اور تاریخیں دیتے رہتے ہیں۔ ایسی مثالیں کثرت سے موجود ہیں کہ بدمعاش ٹولے کا کوئی وکیل اگر بلا وجہ مقدمہ کو لٹکانے کی کوشش کر رہا تو اکثر دیکھا گیا ہے کہ جج محض وارننگ ہی دیتے ہیں اور اُن کے خلاف یا اُن کے موکل کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اُٹھاتے۔ اس مسئلے کو ختم کرنے کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ججوں کو تحفظ فراہم کرنا بھی حکومت کا کام ہے تاکہ جج بغیر کسی خوف کے انصاف فراہم کر سکیں۔ مزید یہ کہ دیانتدار اور دلیر لوگوں کو جج تعینات کیا جائے تا کہ وہ مختلف اطراف سے آنے والا دبائو بھی برداشت کر سکیں۔اسی طرح وکلاء کے لائسنس جاری کرتے وقت بھی مطلوبہ معیار کو سامنے رکھا جائے، تمام ٹیسٹ لیتے وقت چھان بین سختی سے کی جائے۔ وکیل بننے کے امیدوار کا ذہنی رجحان بھی دیکھا جائے اور سب سے بڑھ کر عدالت کے وقار پر کوئی کمپرومائز نہ کیا جائے۔ عدالتوں کے ساتھ بدتمیزی کرنے والے وکلاء کے خلاف سختی سے کاروائی کی جائے۔موجودہ ممبر وکلاء میں سے پچاس فیصد ایسے لوگ ہیں جو وکالت کرتے ہی نہیں صرف ووٹ ڈالنے کیلئے آتے ہیں اور اس طرح بار کے عہدیداران کے چنائو میں بھی ان لوگوں کی رائے شامل ہو جاتی ہے۔یہ لوگ چونکہ وکالت نہیں کرتے اس لئے نہ تو یہ وکلاء برادری اور نظامِ انصاف کے مسائل سمجھتے ہیں اور نہ ہی امیدواروں کو جانتے ہیں، نتیجتاً اکثر ووٹ کا غلط استعمال ہی کرتے ہیں۔اس قسم کے کافی سارے لوگ وکالت کا لائسنس محض بدمعاشی کیلئے حاصل کرتے ہیں اور بعض لوگ تو اس لائسنس کی آڑ میں ناجائز دھندوں میں بھی ملوث ہیں۔اور اس طرح اصل وکلاء برادری کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ان کی وجہ سے عام معاشرے میں یہ سوچ پروان چڑھ چکی ہے کہ وکیل ایسے بدمعاش ہیں جن کو بدمعاشی کے باقاعدہ لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے کو ختم کرنے کیلئے بار کونسلز کو اپنی حکمتِ عملی وضع کرنی چاہیے تا کہ وکلاء کی بدمعاشی کا سلسلہ ختم ہو اور جج آزادانہ اپنا کام کر سکیں۔
مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کے حوالے سے ایک اہم عنصر ججوں کا وکلاء سے خوف زدہ ہونا بھی ہے۔تمام تو نہیں مگر ججوں کی اکثریت وکلاء کی ایک مخصوص جماعت کی بدمعاشیوں کے باعث خوف زدہ بھی رہتی ہے جس کی وجہ سے بھی مقدمات تاخیر کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ چونکہ وکلاء مقامی ہوتے ہیں اور عددی اکثریت بھی رکھتے ہیںاور ججوں کو ذلیل و خوار کرنے سے بھی نہیں کتراتے اِس لئے جج اپنی عزت کے خوف سے بھی دلیرانہ فیصلے کرنے سے ہچکچاتے ہیں اور تاریخیں دیتے رہتے ہیں۔ ایسی مثالیں کثرت سے موجود ہیں کہ بدمعاش ٹولے کا کوئی وکیل اگر بلا وجہ مقدمہ کو لٹکانے کی کوشش کر رہا تو اکثر دیکھا گیا ہے کہ جج محض وارننگ ہی دیتے ہیں اور اُن کے خلاف یا اُن کے موکل کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اُٹھاتے۔ اس مسئلے کو ختم کرنے کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ججوں کو تحفظ فراہم کرنا بھی حکومت کا کام ہے تاکہ جج بغیر کسی خوف کے انصاف فراہم کر سکیں۔ مزید یہ کہ دیانتدار اور دلیر لوگوں کو جج تعینات کیا جائے تا کہ وہ مختلف اطراف سے آنے والا دبائو بھی برداشت کر سکیں۔اسی طرح وکلاء کے لائسنس جاری کرتے وقت بھی مطلوبہ معیار کو سامنے رکھا جائے، تمام ٹیسٹ لیتے وقت چھان بین سختی سے کی جائے۔ وکیل بننے کے امیدوار کا ذہنی رجحان بھی دیکھا جائے اور سب سے بڑھ کر عدالت کے وقار پر کوئی کمپرومائز نہ کیا جائے۔ عدالتوں کے ساتھ بدتمیزی کرنے والے وکلاء کے خلاف سختی سے کاروائی کی جائے۔موجودہ ممبر وکلاء میں سے پچاس فیصد ایسے لوگ ہیں جو وکالت کرتے ہی نہیں صرف ووٹ ڈالنے کیلئے آتے ہیں اور اس طرح بار کے عہدیداران کے چنائو میں بھی ان لوگوں کی رائے شامل ہو جاتی ہے۔یہ لوگ چونکہ وکالت نہیں کرتے اس لئے نہ تو یہ وکلاء برادری اور نظامِ انصاف کے مسائل سمجھتے ہیں اور نہ ہی امیدواروں کو جانتے ہیں، نتیجتاً اکثر ووٹ کا غلط استعمال ہی کرتے ہیں۔اس قسم کے کافی سارے لوگ وکالت کا لائسنس محض بدمعاشی کیلئے حاصل کرتے ہیں اور بعض لوگ تو اس لائسنس کی آڑ میں ناجائز دھندوں میں بھی ملوث ہیں۔اور اس طرح اصل وکلاء برادری کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ان کی وجہ سے عام معاشرے میں یہ سوچ پروان چڑھ چکی ہے کہ وکیل ایسے بدمعاش ہیں جن کو بدمعاشی کے باقاعدہ لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے کو ختم کرنے کیلئے بار کونسلز کو اپنی حکمتِ عملی وضع کرنی چاہیے تا کہ وکلاء کی بدمعاشی کا سلسلہ ختم ہو اور جج آزادانہ اپنا کام کر سکیں۔
Comments
Post a Comment