ٹائوٹ (مدد گار یا خدائی خدمتگار)


ٹائوٹ (مدد گار یا خدائی خدمتگار)
جندھے نال وی واہ پیا اے  اوہ ای لاندا دا پیا اے
یعنی جس سے بھی واسطہ پڑا ہے وہی لوٹ رہا ہے۔ پنجابی کا درج بالا شعر ٹائوٹوں پر بالکل صادق آتا ہے
ٹائوٹ ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو کسی شخص کو کسی تیسرے شخص سے کوئی چیز خریدنے پر آمادہ کرے یا کسی ماہر کی خدمات حاصل کرنے کیلئے تیار کرے، مثال کے طور پر آپ نے وائرنگ کا سامان خریدنا ہے اور کوئی شخص آپ سے کہتا ہے کہ فلاں دوکان سے خریدیں، وہاں سے سستا اور بہتر ملتا ہے اور در حقیقت اُس نے دوکاندار کے ساتھ گاہک بھیجنے کا معاوضہ طے کر رکھا ہوتا ہے، اب یہ شخص جو آپ کو کسی مخصوص دوکان پر بھیج رہا ہے یہ ٹائوٹ ہے ۔ اسی طرح لوگ ڈاکٹروں کیلئے بھی ٹائوٹی کرتے ہیں کہ ان کے پاس مریض بھجوا کر اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ ٹائوٹ وکیلوں کے پاس بھی شکار گھیر کر لاتے ہیں لیکن یہ بات بھی ضروری نہیں کہ اگر کوئی دوست آپ کو کسی وکیل کا ریفرنس دے رہا ہے تو وہ ٹائوٹ ہی ہو۔ یہاں چونکہ عدالتی معاملات زیرِ بحث ہیں لہٰذا ہم اُن ٹائوٹوں کا ذکر کریں گے جوتھانہ اور عدالت میں لوٹ مار کرتے ہیں۔
 ہمارے ملک کے دیگر شعبوں کی طرح تھانہ کچہری میں بھی ٹائوٹ پائے جاتے ہیں۔ جب کوئی شخص پہلی بار مقدمہ بازی میں فریق بنتا ہے تو کافی گھبرایا ہوا ہوتا ہے، اس کی وجہ عدالتی طریقہ کار سے لاعلمی ہے، اور یہ کوئی ایسی عجیب بات بھی نہیں، جب بھی کوئی شخص کوئی نیا کام کرتا ہے توایک گھبراہٹ سی ہوتی ہی ہے۔ دیگر شعبوں کی طرح عدالتوں میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو لوگوں کی لاعلمی کا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ عام طور پر ٹائوٹ حضرات اپنے آپ کو متعلقہ شعبہ کا ماہر ظاہر کرتے ہیں یا اپنے اثرورسوخ سے کام کروانے کا کہہ کرلوٹ مار کرتے ہیں اور اگر کام نہ بھی ہو تو صرف مالی نقصان کا ہی موجب بنتے ہیں مگر عدالتوں میں اس طرح کے لوگ اکثر پارٹی کا نقصان کر کے فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔  دو طرح سے یہ لوگ عدالتی معاملات میں دخیل ہوتے ہیں، مثبت بھی اور منفی بھی۔ مثبت طریقہ سے کام تو تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔جب بھی کسی شخص کو قانونی مدد کی ضرورت پڑتی ہے تو ایسے لوگ خود بخود ہی نازل ہو جاتے ہیں اور غیر محسوس انداز میں ہمدرد بن کر شکار شروع کر دیتے ہیں۔ عدالتی زبان میں ایسے لوگوں کو دلال بھی کہا جاتا ہے۔تھانے اور کچہری کے معاملات میں یہ حضرات لوگوں سے پیسہ بٹورتے نظر آتے ہیں۔ ان کی عمومی پہچان یہ ہے کہ اکثر یہ لوگ آپ کو فارغ نظر آئیں گے، باتوں کے دھنی یہ لوگ جہاں بیٹھتے ہیں افسران اور ججوں سے اپنے تعلقات کے بارے میں ڈینگیں مارتے رہتے ہیں اکثر اوقات اپنی باتوں سے یہ تاثر دیتے ہیں کہ یہ ہر کام کروا سکتے ہیں، اور جھوٹے سچے کارنامے سُناتے رہتے ہیں ، ان کی طرف سے تواتر سے دہرائی جانے والی باتیں اس طرح کی ہوتی ہیں، آج ایک جج صاحب سے ملنے جانا ہے، تھانیدار میری کوئی بات نہیں ٹالتا، ایس پی سے ملنے گیا تو اس نے کھانے کے بغیر اُٹھنے نہ دیا، ہمارا ایم پی اے ، ایم این اے علاقے میں ہر کام مجھ سے مشورہ کر کے کرتا ہے۔ فلاں بندے کا یہ کام کروایا، اس کا یہ مسئلہ حل کیا، آئی جی کو فون کروا کے کوئی بھی کام کروا سکتا ہوں، وغیرہ وغیر۔ اور ساتھ ہی یہ بھی ضرور ظاہر کرتے ہیں کہ وہ یہ سب کام اللہ کی خوشنودی کیلئے کرتے ہیں۔مسائل زدہ لوگ اس طرح کی باتیں سن سن کرپہلے ہی متاثر ہوتے ہیں، جونہی انہیں یا ان سے متعلقہ کسی شخص کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے یہ ان گپیوں سے مدد کی درخواست کرتے ہیں نتیجتاً خدائی خدمتگار (ٹائوٹ) کی چاندی ہو جاتی ہے اور پہلے سے مصیبت زدہ شخص کی بدبختی کا آغاز ہو جاتا ہے، ٹائوٹ آکٹوپس کی طرح شکار کو جکڑ لیتا ہے اور اس بیچارے کے ہوش میں آنے تک اس کا مکمل کباڑا ہو چکا ہوتا ہے۔ٹائوٹ کا رہن سہن جس لیول کا ہو اس کی لوٹ مار بھی اسی لیول کی ہوتی ہے۔ نچلے درجے کا ٹائوٹ سپاہی یا اے ایس آئی کی پتلون اتروانے کی بڑھک مارتا ہے جب کہ بڑا ٹھگ کہتا ہے ایس پی کو الٹا لٹکوا سکتا ہوں۔ ان میں ایک بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ بہت اچھی یادداشت کے مالک ہوتے ہیں،علاقہ میں متعین تمام افسران اور ان کے رشتہ داروں کے نام میراثیوں کی طرح زبانی یاد رکھتے ہیں اور کسی نہ کسی حوالے سے اپنا تعلق ان سے جوڑتے رہتے ہیں اور یہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اِن افسران یا سیاستدانوں کو منت سماجت کر کے اپنی تقریبات میں بلوا لیں تا کہ دیکھنے، سننے والوں کو متاثر کیا جا سکے۔ تھانے سے کام کروانے کیلئے یہ ٹائوٹ پولیس کے نام پر رشوت لیتے ہیں، کچھ رشوت پولیس کو دے کر کام نکلواتے ہیں، کچھ رقم خود رکھ لیتے ہیں، کچھ ٹائوٹ رشوت کی ساری رقم خود رکھ کر ذاتی یا سیاسی اثرورسوخ سے الٹے سیدھے کام کرواتے ہیں۔ عدالتی معاملات میں ججوں کے نام پر رشوت لے لیتے ہیں، اور جج صاحبان کو علم ہی نہیں ہوتا کہ اُن کا نام بھی بیچا جا رہا ہے۔ اسی طرح یہ ٹائوٹ وکیلوں کے لیے بھی شکار گھیر کر لاتے ہیں۔ انہوں نے وکلاء کے ساتھ پہلے سے اپنا حصہ مقرر کیا ہوتا ہے۔ وکیل کو فیس دلوا کر چلے جاتے ہیں اور بعد میں آ کر اپنا حصہ لے جاتے ہیں۔ کچھ ٹائوٹ یا مددگار بہتر انداز میں بھی کام کرتے ہیں یعنی وکیل کی فیس میں سے حصہ تو لیتے ہی ہیں لیکن کلائنٹ کے مفاد کا بھی تھوڑا بہت خیال ضرور رکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ مقدمات قابل وکلاء کے ہی سپرد کریں۔ لیکن ٹائوٹ حضرات کی اکثریت مقدمات ایسے وکلاء کو دلواتے ہیں جو اُن کو زیادہ حصہ دیتے ہیں اور یقینی طور پر یہ وکلاء اتنے قابل نہیں ہوتے کہ کیس کی مناسب طور پر پیروی کر سکیں نتیجتاً کلائنٹ کا دوہرا نقصان ہوتا ہے، یعنی فیس تو گئی سو گئی اس سے کہیں بڑا نقصان اِن کے مقدمہ کا ہوتا ہے۔ ان ٹائوٹ حضرات کو صرف اپنے فائدے سے غرض ہوتی ہے اور اس مقصد کیلئے یہ ہر حد پار کر جاتے ہیں اور اپنے چند پیسوں کیلئے لوگوں کا لاکھوں کروڑوں کا نقصان کر ڈالتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ ٹائوٹی کے کام میں ملوث لوگوں کی اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جو بظاہر انتہائی معزز نظر آتے ہیں اور ان کا تعلق اچھے بھلے کھاتے پیتے گھرانوں سے ہے۔ یہ لوگ سیاستدانوں سے چمٹے بھی نظر آتے ہیں۔ ٹائوٹوں سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ عدالت سے متعلق کوئی بھی معاملہ درپیش ہو تو کچہری جا کر اپنے کیس سے متعلقہ وکلاء کے بارے میں پوچھیں، جو نام سامنے آئیں ان میں سے تین چار کے ساتھ اپنا کیس ڈسکس کریں تو کوئی بہتر حل آپ کے سامنے آجائے گا۔
تو جو ایک ذرّہ بھر بھلائی کرے گا اسے دیکھے گا، اور جو ایک ذرّہ بھر برائی کرے گااسے دیکھے گا۔  سورۃ ۹۹ الزلزال آیت ۸،۷

Comments

Popular posts from this blog

مشورہ کس سے اور کیسے کیا جائے؟

مقدمہ کے مختلف مراحل و طریقہ کار

تعارف