سچا اور مضبوط کیس ہارنے کی اہم وجہ

سچا اور مضبوط کیس ہارنے کی اہم وجہ
میرے خیال میں ایک مضبوط اور سچا کیس
 ہارنے کی 90 فیصد ذمہ داری وکیل پر عاید ہوتی ہے 10فیصد دیگر عوامل اس ناکامی
میں شامل ہوتے ہیں۔اور اکثر کیسوں میں تو وکیل ہی مکمل طور پر ذمہ دار ہوتے ہیں۔اور یہ کیس ہارنے کے بعد سارا الزام عدالت کے سر ڈال دیتے ہیں۔ تسلسل کے ساتھ عدالتوں میں پیش ہونے والے لوگ اس بات کو بخوبی سمجھنے لگتے ہیں۔اس ہار کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں  ایک وجہ نالائقی، لاپرواہی اور غیر ذمہ داری اور دوسری وجہ بد دیانتی بھی ہو سکتی ہے۔کلائنٹ اکثر بیشتر دوست ہوتے ہیں یا دوستوں کی وساطت سے آنے والے لوگ (دوستوں کے دوست) ہوتے ہیں اور ایک انتہائی افسوسناک بات بھی کئی بار دیکھنے میں آئی ہے کہ کئی وکلاء چند پیسوں کیلئے دوستوں کے اس اعتماد کا خون کر دیتے ہیں، الٹے سیدھے کیس بنا کر دائر کر دیتے ہیں جن کی نہ تو اِن کو ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی ان کو کوئی فائدہ ہوتاہے۔ نمونے کے طور پر چند مثالیں عرض ہیں
  ایک وکیل صاحب نے عدالت کی طرف سے اندراج پرچہ کے حکم کے خلاف نگرانی دائر کر دی، جب کہ قانوناً اس حکم کے خلاف نگرانی دائر ہی نہیں ہو سکتی۔
 ایک خاتون اپنے والد کی جائیداد کا حصہ اپنے بھائی سے لینا چاہتی تھی، اس کے وکیل نے ناجائز قبضے کا استغاثہ دائر کر دیا کہ میرے بھائی نے میری زمین کا قبضہ زبردستی مجھ سے چھین لیا ہے۔ حالانکہ اس خاتون کے پاس کبھی بھی اس زمین کا قبضہ نہیں رہا تھا،
کیونکہ والد کی زندگی میں ہی اُس کی شادی ہو گئی تھی اور جب والد کی وفات ہوئی، وہ اپنے سسرال میں تھی۔چونکہ قبضہ چھینے جانے کا الزام جھوٹا تھا لہٰذا استغاثہ عدالت نے خارج کر دیا۔ جب کہ کیس بڑا سیدھاسا تھا کہ خاتون کہتی میرے والد کی وراثت میں سے مجھے میرا حصہ دلایا جائے۔اور یہی کیس بعد میں ایک اور وکیل صاحب نے دائر کیا۔
 ایک عورت نے اپنے والد کی وراثتی جائیداد (مکان) میں سے اپنا حصہ لینے کی غرض سے اپنے بھائی کے خلاف کیس کرنے کیلئے وکیل سے رابطہ کیا، وکیل صاحب نے جلد بازی میں خاتون کی ولدیت غلط لکھ دی۔ خاتون کے بھائی نے عدالت میں آکر کہا کہ یہ عورت جس شخص کی جائیداد لینا چاہتی ہے نہ یہ اُس کی بیٹی ہے اور نہ ہی یہ میری بہن ہے۔اس عورت کا دعویٰ دیکھ لیں، اس کا اور میرا والد دو الگ الگ اشخاص ہیں۔ اب اس خاتون کے وکیل صاحب کو ہوش آیا اور انہوں نے عدالت میں نام والد درست کرنے کیلئے درخواست دی جو عدالت نے منظور کرلی اور وکیل صاحب سے کہا کہ خاتون کی ولدیت درست کر کے ترمیم شدہ دعویٰ عدالت میں داخل کریں۔ یہاں وکیل صاحب نے سابقہ غلطی پھر دہرائی اور ترمیم والے دعوے میں بھی وہی غلط ولدیت دوبارہ درج کر دی جس کے نتیجے میں وہ خاتون کئی سالوں سے عدالت میں خوار ہو رہی ہے۔
 ایک شخص نے دوسرے کو رقم کے عوض چیک دے رکھا تھا، جو کیش نہ ہوا تو جس شخص نے پیسے لینے تھے، اس نے پرچہ درج کروانے کیلئے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ جب ملزم کو پتا چلا کہ میرے خلاف کاروائی ہونے جا رہی ہے تو وہ ایک قابل وکیل کے ہتھے چڑھ گیا جس نے اُسے پرچے سے بچانے کیلئے اسکی طرف سے حکمِ امتناعی کا دعویٰ دائر کر کے فیس وصول کر لی۔ اور پرچہ پھر بھی اُس کے خلاف ہو گیا۔کیونکہ کسی بھی قانونی کاروائی کے خلاف حکمِ امتناعی جاری ہی نہ ہو سکتا ہے۔
ایک ملزم جیل میں تھا اُس کا سسر اس کی ضمانت کروانے کیلئے وکیل صاحب سے ملا۔ وکیل صاحب نے پھرتیوں کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے ملزم کے سسر کی ضمانت عدالت میں دائر کر دی جس بیچارے کا نام بھی پرچہ میں نہ تھا۔ جب عدالت کی طرف سے آواز ہوئی تو ملزم کا سسر ہکا بکا جج کے سامنے کھڑا تھا۔مزید حیرانی کی بات یہ کہ ایک ایسے شخص کا جیل سے وکالت نامہ بن کر آ جانا جو جیل میں موجود ہی نہ تھا۔ اس پر کیا بات کی جائے؟ بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ نظامِ عدل کے ٹھیکیداروں کو اِس پر غور کرنا چاہیے۔
 وکلاء دوستوں سے انتہائی معذرت کے ساتھ کہ ہم اپنے پیشے کے ساتھ مخلص نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ، ’’کردار کے بغیر علم برائی کی طاقت بن جاتا ہے‘‘ اور آج وکلاء کی ایک اچھی خاصی تعداد برائی کا ہتھیار بن چکی ہے۔ کسی سے سنا تھا کہ، ’’پیشہ انسان کو ذلیل نہیں کرتا، بلکہ انسان پیشے کو ذلیل کرتا‘‘ اور آج ہم نے اس پیشے کو ذلیل کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو معاشرے کا مثالی شہری ثابت کرتے ہوئے قانونِ اخلاقیات کی پابندی کریں تا کہ اس مقدس پیشہ اور وکلاء
برادری کی عزت بحال ہو سکے۔
ایک بات اور پتے کی، میں بتائوں تجھ کو
آخرت بنتی چلی جائے گی، دنیا نہ بنا

جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اُس کو اِس (کے ثواب) میں سے حصہ ملے گااور جو بُری بات کی سفارش کرے، اُس کو اِس کے عذاب میں سے حصہ ملے گا اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔سورۃ۴ النساء آیت ۸۵

Comments

Popular posts from this blog

مشورہ کس سے اور کیسے کیا جائے؟

مقدمہ کے مختلف مراحل و طریقہ کار

تعارف