کلائنٹ کی ذمہ داریاں اور احتیاطیں
خود کو بدل دو، قسمت خود بخود بدل جائے گی۔
کلائنٹ کی ذمہ داریاں اور احتیاطیں
چاہے آپ کی کسی جھگڑے میں صلح ہی کیوں نہ ہو جائے، جرم چاہے قابلِ دست اندازی ہو یا ناقابلِ دست اندازی، رپورٹ ضرور درج کروائیں تا کہ ضرورت پڑنے پر بعد کے کسی وقوعے کو اُس کے ساتھ ملا کر حقائق واضع کیے جا سکیں۔
اپنے کسی بھی کیس کی تفتیش کے دوران اپنے وکیل سے مشورہ کیے بغیر پولیس کو کچھ بھی لکھ کر دینے سے یا کسی کاغذ پر دستخط کر کے دینے سے گریز کریں۔
کیس تحریر ہونے کے بعد عدالت میں دائر کیے جانے سے قبل خود ضرور پڑھیں، لکھتے وقت بہت ساری غلطیاں ہو جاتی ہیں، خاص طور پر فریقین کے نام و پتہ کے حوالے سے اکثر کوئی نہ کوئی غلطی دیکھنے میں آتی ہے۔
کوشش کریں کہ اپنے کیس سے متعلقہ عدالت سے ہی اپنے کیس کا فیصلہ کروائیں، اور اختیارِ سماعت سے باہر مقدمہ بازی سے گریز کریں، مطلب یہ کہ جس عدالت کی حدود میں آپ رہتے ہوں یا جس عدالت کی حدود میں آپ کا کوئی معاملہ ہو وہیں اپنا کیس دائر کریں، بعض وکلاء غلطی سے یا محض فیس لینے کیلئے غیر متعلقہ عدالتوں میں کیس دائر کر دیتے ہیں جس سے سائل اور عدالت کا وقت ضائع ہوتا ہے۔
جو لوگ قانون کے شعبے سے وابستہ نہیں اور خود ساختہ ماہر بنے ہوئے ہیں اُن سے بچیں، وہ ایسے الٹے سیدھے مشورے دیں گے کہ آپ کے مقدمے کا مکمل طور پر بیڑہ غرق کروا دیں گے۔آپ کے مخالفین کو لفّاظی سے برباد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے آپ کو عملی طور پر تباہ کر دیں گے
ٹیلی وژن شوز میں بیٹھے قانونی ماہرین کے مشورے آپ کیلئے ہر گز سود مند نہیں ہو سکتے کیونکہ ان ماہرین کے پاس آپ کے مقدمے کی مکمل تفصیل نہیں ہوتی اس لیے اُن کے مشورے عمومی نوعیت کے ہوتے ہیں اور کسی خاص مقدمے کیلئے درست حل تجویز نہیں کرتے اِسلئے اِن پر دھیان نہ دیں۔ا
اگرچہ آپ نے بہت قابل اور محنتی وکیل کا انتخاب کیا ہے، وکیل کا سٹاف بھی محنتی اور ذمہ دار ہے پھر بھی آپ کا اپنے کیس کے حوالے سے مستعد رہنا بہت ضروری ہے۔ یہاں پر ہم چند ایسے نکات پر بات کریں گے جن کے حوالے سے آپ کو خود محتاط رہنا چاہیے ۔ اپنے کیس سے متعلقہ تمام حقائق اور (نئے پرانے) حالات و واقعات تفصیل کے ساتھ وکیل کو بتائیں اور اس حوالے سے بہتر یہ ہے کہ ایسی تمام باتیں جو آپ وکیل کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں لکھ کر لے جائیں کیونکہ زبانی بات کرتے ہوئے اکثر بہت ساری باتیں رہ جاتی ہیں۔یاد رکھیں کہ اگر آپ نے اپنے وکیل سے کچھ چھپایا تو مخالف پارٹی وہ بات جب عدالت کے سامنے کرے گی تو امکان ہے کہ آپ کا نقصان ہو جائے کیونکہ آپ کا وکیل ہو سکتا ہے اس بات کیلئے تیار نہ ہو، اس لئے کیس سے متعلق ہر چھوٹی سے چھوٹی بات اپنے وکیل کو بتائیں خواہ آپ کو کتنی ہی غیر اہم لگے۔ اپنے وکیل سے یہ بھی پوچھیں کہ آگے چل کر کس قسم کی معلومات کیس کیلئے درکار ہوں گی۔کسی بھی کیس کی کامیابی کیلئے عدالت سے باہر کیا جانے والا کام زیادہ ہوتا ہے اور زیادہ اہم بھی ہوتا ہے۔ جتنی زیادہ معلومات کوئی فریق اکٹھی کرتا ہے اتنا ہی اُس کی کامیابی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اور اس حوالے سے وکیل یا کلائنٹ کو تھوڑی بہت جاسوسی بھی کرنی پڑ سکتی ہے۔ اپنے مخالفین کے بارے میں عدالتی ریکارڈ، تھانوں سے ریکارڈ ، مختلف دفاتر سے ریکارڈ، گواہان اور دیگرمتعلقہ اشخاص کے بارے معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں اور یہ معلومات ہر مقدمہ کی اپنی ضرورت کے مطابق حاصل کی جاتی ہیں۔غرض عدالت سے باہر جتنی زیادہ محنت ہو گی عدالت میں اس کا اتنا ہی اچھا نتیجہ ملے گا۔ عدالت میں پیش ہونا کمرہء امتحان میں جانے جیسا ہے جس طرح ایک سٹوڈنٹ کلاس یا گھرمیں تیاری کرتا ہے اور کمرہء امتحان میں اپنے علم کا اظہار کرتا ہے جس سے اُسے اپنی محنت کے مطابق رزلٹ ملتا ہے اسی طرح وکیل اور کلائنٹ کی عدالت سے باہر کی ہوئی محنت عدالت میں اپنا رنگ دکھاتی ہے۔یہ بھی کوشش کریں کہ عدالت میں درست موقف کے ساتھ آئیں ورنہ
نقصان ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ اس حوالے سے ایک کیس کی مثال میرے سامنے ہے۔ ایک شخص نے کسی دوست سے مل کر کاروبار کیا وہ پارٹنر اسکی رقم دبا کر بیٹھ گیا، اب یہ شخص مجھ سے ملا اور کہنے لگا کہ میرے پارٹنرکے خلاف میرے ساتھ ڈکیتی کرنے کا پرچہ کروا دیں تا کہ اُسے پریشر میں لا کر میں اپنی رقم وصول کر سکوں۔میں نے اسے سمجھایا کہ اس طرح کرنے سے کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں اور تم ایک جھوٹا موقف اختیار کر کے اپنی رقم ڈبو لو گے مگر وہ نہ مانا اور اس نے کسی ڈی ایس پی کو سفارش کروا کے اپنے پارٹنر کے خلاف ڈکیتی کا مقدمہ درج کروا لیا، جو کہ تھانے میں ہی ختم ہو گیااور یوں یہ شخص اپنی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھا کیونکہ اپنے پارٹنر کے خلاف ڈکیتی کے پرچہ کے اندراج کے بعد وہ یہ موقف بھی نہیں لے سکتا تھا کہ ہم نے مل کر کاروبار کیا تھا۔
اپنے کیس کے لفافے کو مکمل طور پر تمام تفصیلات سے پُر کریں۔ لفافے پر عدالت کا نام، مقدمے کا عنوان، کیس کی نوعیت (دیوانی یا فوجداری)، کیس کی سٹیج (مثلاً دعویٰ، چالان، ضمانت، نگرانی،اپیل وغیرہ)، مخالف وکیل کا نام پتہ فون نمبر،کلائنٹ کا اپنا نام، پتہ اور رابطہ نمبر وغیرہ درج کئے جاتے ہیں۔ عام طور پروکلاء صاحبان کے منشی یہ معلومات لفافے پر لکھتے ہیں لیکن اکثر یہ معلومات مکمل نہیں ہوتیں۔لہذٰا کلائنٹ کو خود چاہیے کہ یہ معلومات اپنے لفافے پر مکمل طور پر تحریر کروائے اور ہر تاریخ کی کاروائی بھی لکھوائے (تا کہ پتا ہو کہ آئندہ تاریخ پر کیا کاروائی ہو گی)۔ مقدمہ بازی کے کسی نہ کسی مرحلہ پر ان تمام معلومات کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ جب کوئی مقدمہ شروع ہو تو اپنے پاس ایک ڈائری رکھ لیں جس میں مقدمہ کی تاریخوں اور کاروائی کا اندراج کرتے رہیں۔ اپنے کیس کی پیروی مکمل توجہ سے کرنا آپ کی اپنی ذمہ داری ہے۔ عام طور پر عدالت میں فریقینِ مقدمہ کی ذاتی حاضری ہر تاریخ پر ضروری نہیں ہوتی، وکیل یا اُس کا منشی خود ہی پیش ہو جاتے ہیں مگر ہو سکتا ہے کہ آپ کا وکیل اور اُس کا منشی کسی دوسری عدالت میں مصروف ہونے کی وجہ سے بوقت آواز عدالت میں آپ کے کیس کیلئے پیش نہ ہو سکیں اس لئے عدالت میں کسی نہ کسی شخص کا موجود ہونا ضروری ہے جو عدالت کی طرف سے کیس کی آواز ہونے کی صورت میں آپ کی طرف سے پیش ہوکر حاضری لگوا سکے اور عدالت کوبتا سکے کہ ہمارا وکیل دوسری عدالت میں ہے کیس کو انتظار میں رکھ لیا جائے یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ میں اپنے وکیل صاحب کو بُلا کر لے آتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ بعض اوقات مخالف وکیل کے نہ آنے کی وجہ سے بھی کیس میں مزید کاروائی ممکن نہیں ہوتی، ایسی صورت میں بھی آپ کے وکیل کا عدالت پیش ہونا ضروری نہیں ہوتا اور فریقِ مقدمہ عدالت سے خود ہی تاریخ لے سکتا ہے ۔ اگر فریقِ مقدمہ کا کسی وجہ سے خود عدالت جانا ممکن نہ ہو تو کسی دوسرے مستعد شخص کو بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ سینئر وکلاء کے ساتھ نئے وکیل بھی کام سیکھنے کیلئے آتے ہیں آپ عدالت میں اپنے مقدمہ کی نگرانی کرنے کیلئے انتہائی معمولی معاوضے پر کسی جونیئر وکیل کی ڈیوٹی بھی لگا سکتے ہیں۔ عدالتیں کیس سنتے وقت ہر تاریخ پر اگلی تاریخ کو ہونے والی کاروائی کے بارے میں لکھتی ہیں لہذٰا جو شخص بھی عدالت جائے آئندہ تاریخ کی کاروائی کا بھی علم رکھے۔ تا کہ کاروائی کے مطابق وکیل اور سائل تیار ہوں۔ عدالت میں بعض اوقات کیس کی باری آنے میں دیر بھی ہو جاتی ہے اس لئے جو شخص بھی جائے ناشتہ ، واش روم وغیرہ سے فارغ ہو کر جائے، عدالت کے باہر اور اندر باری کا انتظار کرتے ہوئے شور شرابا سے گریز کریں اور اپنے موبائل کی گھنٹی بھی بند کر لیں تاکہ عدالت کا کام متاثر نہ ہو۔ بصورت ِدیگر عدالتی وقار کا خیال نہ رکھنے والے شخص کو جج صاحب جرمانہ یا قید کی سزا بھی دے سکتے ہیں۔ کچہریوں میں ایک عام رجحان یہ بھی پایا جاتا ہے کہ وکلاء اور ان کے کلرک کلائنٹ سے خالی کاغذات پر دستخط کروا کے رکھ لیتے ہیں تا کہ کیس چلنے کے دوران کوئی درخواست وغیرہ عدالت میں دینی ہو تو آپ کی عدم موجودگی میں بھی دی جا سکے۔ اس سے آسانی بھی ہوتی ہے کہ محض دستخط کرنے کیلئے وکیل کے دفتر نہیں جانا پڑتا مگر کبھی کبھی اس لاپرواہی کا بہت زیادہ نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ عام طور پر وکلاء ان کاغذات کا غلط استعمال نہیں کرتے مگر یہ ضروری نہیں کہ آپ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہو۔پھر یہ بات بھی ہے کہ وکلاء کے دفاتر سے کاغذات کی چوری کا امکان بھی ہوتا ہے لہذٰا تمام تر احتیاط آپ کے اپنے ذمے ہے کہ’’ اپنا سامان بچائیں، دوسروں کا ایمان بچائیں‘‘اور کوشش کریں کہ کبھی کسی خالی کاغذ پر دستخط کر کے نہ دیں خاص طور پر عدالتی معاملات کے دوران۔ اور یہ احتیاط اس وقت اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتی ہے جب آپ کا کیس زیادہ اہمیت کا حامل ہو۔اس سے آپ کو ذرا زحمت زیادہ ہوگی کہ جب بھی آپ کی طرف سے کوئی کاروائی کرنی ہو گی تو آپ کو دستخط کرنے کیلئے اپنے وکیل کے دفتر جانا پڑے گا لیکن بدلے میں پریشانی اور نقصان سے محفوظ بھی رہیں گے۔
اپنے کیس کے تمام کاغذات محفوظ طریقے سے رکھیں، جو کاغذات وکیل یا کسی بھی دیگر شخص کو دیں ان کی نقول اپنے پاس رکھیں، اپنے کاغذات اپنے کیس والے لفافے میں خود دھیان سے رکھوائیں ، اگر اصل کاغذات دینا ضروری نہ ہو تو اصل کاغذات کی صرف نقول ہی وکیل کو دیں، اور اصل کاغذات صرف عدالتی ضرورت کے وقت دیں جنہیں بعد میں بلا تاخیر واپس لے لیں۔یہ تماشہ بھی کچہری میں دیکھا گیاہے کہ بعض اوقات کسی بددیانتی کے تحت وکیل نے ہی کاغذات واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ مزید یہ کہ آپ کے کاغذات دوسروں کے لئے اتنے اہم نہیں کہ وہ اُن کی حفاظت آپ کی طرح کر سکیں۔ اسی طرح اگر دیکھیں کہ آپ کا مقدمہ زیادہ اہم ہے تو دورانِ سماعت تمام عدالتی کاروائی کی مصدقہ نقول تیار کروا کر محفوظ کرتے جائیں کیونکہ کئی بار یہ بھی ہوا ہے کہ لوگوں نے مخالف فریق کو نقصان پہنچانے کی غرض سے عدالت کی فائلوں سے کاغذات نکال لیے یا اہلکاروں سے مل ملا کر کاغذات بدل ڈالے۔جب بھی مقدمہ کے سلسلے میں کسی وکیل یا کسی دیگر شخص سے ملنے کیلئے جائیں تو مقدمہ سے متعلق تمام کاغذات ساتھ لے کر جائیں۔ مقدمہ جلد بازی میں دائر کروانے کی کوشش نہ کریں، جس طرح ایک مکان بنانا شروع کرنے سے پہلے انسان پوری پلاننگ کرتا ہے یعنی اپنی ضرورت اور جگہ کو سامنے رکھتے ہوئے نقشہ بنوانا، مستری اور مزدوروں کا انتخاب، مٹیریل کی خریداری اور کام کی جگہ پہنچانے کا بندوبست وغیرہ۔ اور جو لوگ اس طرح کی پلاننگ کے بغیر تعمیر شروع کروا دیتے ہیں وہ بعد میں روتے رہتے ہیں کہ یہ کمرہ یہاں بنوانا تھا، یہ باتھ یہاں ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ یہ تعمیر تو پھر بھی بعد میں گرا کر تبدیل کروائی جا سکتی ہے مگر جلد بازی میں دائر کیا گیا کیس زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ بعض اوقات کیس کے مضمون میں تبدیلی کرنا ممکن نہیں رہتا۔ کیس کے بارے میں مشورہ لینے کیلئے وکیل سے ملنے عدالتی ٹائم کے بعد جائیں کیوں کہ عدالتی وقت میں اُس کی توجہ لازمی طور پر عدالت میں زیر سماعت مقدمات کی طرف ہو گی اور وہ آپ کی بات پوری توجہ سے نہیں سُن پائے گا۔ آج کل موبائل کا دور ہے، کوشش کریں کہ پہلے فون پر اطلاع دے کر جائیں یہ آپ اور وکیل دونوں کیلئے سہولت کا باعث ہوگا۔ کیس زیادہ اہم ہو تو اپنے مقدمہ کے حالات بیان کر کے وکیل کو ایک آدھ دن کا وقت دیں تاکہ وہ آپ کے معاملات پر مکمل غور کر کے کوئی بہتر حل تجویز کر سکے۔اکثر وکلاء صرف اس خوف سے کہ کلائنٹ کسی اور وکیل کے پاس نہ چلا جائے یا کیس کرنے کا ارادہ ہی نہ ملتوی کر دے، جلدی جلدی کیس دائر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس طرح کئی بار کیس کے حالات درست بیان نہیں ہو پاتے اور کبھی کبھی بہت اہم حقائق بیان ہونے سے رہ جاتے ہیں۔اسی طرح کیس دائر کرنے سے پہلے یہ دیکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ آپ کیس پہ کیا خرچ کریں گے اور آپ کو کیا بچے گا، یہ نہ ہو کہ پانچ روپے وصول کرتے کرتے پچاس خرچ ہو چکے ہوں، اس حوالے سے اکثر وکلاء درست مشورہ نہیں دیتے کہ ان کو تو فیس ہر صورت میں مل ہی جانی ہے۔
ہمارے سست عدالتی نظام کی وجہ سے بھی اکثر لوگ گھبرا جاتے ہیں اور اپنے وکیل کو نالائق سمجھتے ہوئے بار بار وکیل تبدیل کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے وقت اور پیسے کا زیادہ ضیاع ہوتا ہے۔یاد رہے کہ فوری رزلٹ بہت کم کیسز میں ملتا ہے۔عدالتوں میں کیسز کا بہت زیادہ رش ہے اور ساتھ ہی عدالتی نظام سست ہونے کی وجہ مقدمات بہت سست رفتاری کے ساتھ چلتے ہیں۔فوجداری مقدمات میں اکثر لوگ ضمانت کی سطح پر ہی اپنی تمام توانائیاں خرچ کر کے تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں اور اصل کیس یعنی کہ چالان پر زور ہی نہیں دیتے اور عدالتوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں حالاں کہ ضمانت ہو جانے کے باوجود اصل مقدمہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لہٰذا مقدمہ کی پیروی صبر و تحمل کے ساتھ کریں، اور گر آپ کا وکیل محنت اور ذمہ داری کے ساتھ کام کر رہا ہے تو اس کے ساتھ دیر سویر کے اس حوالے سے بحث و تکرار سے گریز کریں۔ کئی ایک معاملات عدالتی صوابدید پر منحصر ہوتے ہیں اور ان میں ناکامی کو لوگ وکیل کی نالائقی تصور کر لیتے ہیں، مثلاً کسی مقدمہ میں حکمِ امتناعی نہ ملنا یاکسی کیس میں ملزم کی ضمانت نہ ہونا، اس طرح کی ناکامیاں عارضی ہوتی ہیں اور اِن سے اصل مقدمہ کا فیصلہ متاثر نہیں ہوتا۔اسی طرح کئی جج بد دیانتی سے یا کسی غلط فہمی کی بنا پر حقائق کے بر عکس فیصلہ کر دیتے ہیں، اِس کو بھی درست کروایا جا سکتا ہے بشرطیکہ کیس تحریر کرنے اور شہادت وغیرہ کروانے میں وکیل نے غلطیاں نہ کیں ہوں۔ یہاں پر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ عدالتی نظام کی سستی سے مراد ججوں کی طرف سے سستی یا تاخیر نہیں بلکہ اس قانون کی خرابی مراد ہے جس کے تحت عدالتیں کام کرتی ہیں( یعنی ضابطہ جاتی قانون)، ضابطہ دیوانی، ضابطہ فوجداری، قانونِ شہادت وغیرہ۔ اور اِن قوانین کے نقائص دور کرنا قانون ساز اسمبلیوں کا کام ہے مگر بدقسمتی سے ہماری قومی و صوبائی اسمبلیوں نے کبھی بھی اِس طرف توجہ نہیں دی۔
تمہی نے درد دیا ہے، تمہی دوا دینا
ایک دفعہ ایک بوڑھی عورت عدالت میں داخل ہوئی اور جج صاحب سے مخاطب ہوئی، ’’ بیٹا! میرے کیس کے کاغذات مجھے واپس کر دو، تھانیدار نے کہا ہے کہ میں عدالت سے کاغذات واپس لے آئوں تو وہ میرا کام کر دے گا۔جج صاحب اور عدالت میں موجود دیگر لوگ اُس عورت کی سادگی پر ہنسنے لگے۔ لیکن اُس بیچاری کو تو تھانیدار نے ہی یہ راہ سجھائی تھی۔
اکثر لوگ فوجداری مقدمات کے حوالے سے پولیس کو ہی سب کچھ سمجھ لیتے ہیں ، حالانکہ جو مقدمات پولیس بناتی ہے (یعنی جن مقدمات کی مستغیث پولیس خود ہو)ان میں پولیس کسی ملزم کو کیسے رعایت دے سکتی ہے۔مثلاً منشیات کے کیس، جوئے کے کیس، امن و امان سے متعلقہ کیسز وغیرہ۔ان مقدمات کی ایف آئی آر میں پولیس خود مستغیث ہوتی ہے اور اپنے ہی بنائے ہوئے کیس کو کوئی کیسے جھوٹا قرار دے گا۔ اگر کوئی تھانیدار ایسا کرے تو وہ خود پھنس جائے گا اور اسے پوچھا جائے گا کہ اگر ملزم بے گناہ تھا تو تم نے جھوٹا پرچہ کیوں درج کیا۔لوگ سادہ لوحی میں ایسے معاملات کیلئے بھی پولیس سے ہی رابطہ کرتے ہیں اور مزید پھنستے چلے جاتے ہیں بہت اہم بات جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ پولیس کیلئے ہر شخص، ہر کیس سے زیادہ اہم اُس کی ملازمت ہے اور وہ اپنی ملازمت کو محفوظ رکھنے کیلئے کچھ بھی کر گذرے گا۔ اسی طرح دیگر سرکاری ملازمین کیلئے بھی یہی فارمولا ہے۔ مگر اچھے اور قابل وکیل کیلئے اپنا کلائنٹ اور اُس کا مفاد اہم ہوتا ہے۔لہٰذا یک سمجھدار، محنتی اور دیانتدار وکیل سے بر وقت مشورہ ہی آپ کے مفادات کے تحفّظ کا ضامن ہے۔
اگرچہ آپ نے بہت قابل اور محنتی وکیل کا انتخاب کیا ہے، وکیل کا سٹاف بھی محنتی اور ذمہ دار ہے پھر بھی آپ کا اپنے کیس کے حوالے سے مستعد رہنا بہت ضروری ہے۔ یہاں پر ہم چند ایسے نکات پر بات کریں گے جن کے حوالے سے آپ کو خود محتاط رہنا چاہیے ۔ اپنے کیس سے متعلقہ تمام حقائق اور (نئے پرانے) حالات و واقعات تفصیل کے ساتھ وکیل کو بتائیں اور اس حوالے سے بہتر یہ ہے کہ ایسی تمام باتیں جو آپ وکیل کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں لکھ کر لے جائیں کیونکہ زبانی بات کرتے ہوئے اکثر بہت ساری باتیں رہ جاتی ہیں۔یاد رکھیں کہ اگر آپ نے اپنے وکیل سے کچھ چھپایا تو مخالف پارٹی وہ بات جب عدالت کے سامنے کرے گی تو امکان ہے کہ آپ کا نقصان ہو جائے کیونکہ آپ کا وکیل ہو سکتا ہے اس بات کیلئے تیار نہ ہو، اس لئے کیس سے متعلق ہر چھوٹی سے چھوٹی بات اپنے وکیل کو بتائیں خواہ آپ کو کتنی ہی غیر اہم لگے۔ اپنے وکیل سے یہ بھی پوچھیں کہ آگے چل کر کس قسم کی معلومات کیس کیلئے درکار ہوں گی۔کسی بھی کیس کی کامیابی کیلئے عدالت سے باہر کیا جانے والا کام زیادہ ہوتا ہے اور زیادہ اہم بھی ہوتا ہے۔ جتنی زیادہ معلومات کوئی فریق اکٹھی کرتا ہے اتنا ہی اُس کی کامیابی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اور اس حوالے سے وکیل یا کلائنٹ کو تھوڑی بہت جاسوسی بھی کرنی پڑ سکتی ہے۔ اپنے مخالفین کے بارے میں عدالتی ریکارڈ، تھانوں سے ریکارڈ ، مختلف دفاتر سے ریکارڈ، گواہان اور دیگرمتعلقہ اشخاص کے بارے معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں اور یہ معلومات ہر مقدمہ کی اپنی ضرورت کے مطابق حاصل کی جاتی ہیں۔غرض عدالت سے باہر جتنی زیادہ محنت ہو گی عدالت میں اس کا اتنا ہی اچھا نتیجہ ملے گا۔ عدالت میں پیش ہونا کمرہء امتحان میں جانے جیسا ہے جس طرح ایک سٹوڈنٹ کلاس یا گھرمیں تیاری کرتا ہے اور کمرہء امتحان میں اپنے علم کا اظہار کرتا ہے جس سے اُسے اپنی محنت کے مطابق رزلٹ ملتا ہے اسی طرح وکیل اور کلائنٹ کی عدالت سے باہر کی ہوئی محنت عدالت میں اپنا رنگ دکھاتی ہے۔یہ بھی کوشش کریں کہ عدالت میں درست موقف کے ساتھ آئیں ورنہ
نقصان ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ اس حوالے سے ایک کیس کی مثال میرے سامنے ہے۔ ایک شخص نے کسی دوست سے مل کر کاروبار کیا وہ پارٹنر اسکی رقم دبا کر بیٹھ گیا، اب یہ شخص مجھ سے ملا اور کہنے لگا کہ میرے پارٹنرکے خلاف میرے ساتھ ڈکیتی کرنے کا پرچہ کروا دیں تا کہ اُسے پریشر میں لا کر میں اپنی رقم وصول کر سکوں۔میں نے اسے سمجھایا کہ اس طرح کرنے سے کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں اور تم ایک جھوٹا موقف اختیار کر کے اپنی رقم ڈبو لو گے مگر وہ نہ مانا اور اس نے کسی ڈی ایس پی کو سفارش کروا کے اپنے پارٹنر کے خلاف ڈکیتی کا مقدمہ درج کروا لیا، جو کہ تھانے میں ہی ختم ہو گیااور یوں یہ شخص اپنی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھا کیونکہ اپنے پارٹنر کے خلاف ڈکیتی کے پرچہ کے اندراج کے بعد وہ یہ موقف بھی نہیں لے سکتا تھا کہ ہم نے مل کر کاروبار کیا تھا۔
اپنے کیس کے لفافے کو مکمل طور پر تمام تفصیلات سے پُر کریں۔ لفافے پر عدالت کا نام، مقدمے کا عنوان، کیس کی نوعیت (دیوانی یا فوجداری)، کیس کی سٹیج (مثلاً دعویٰ، چالان، ضمانت، نگرانی،اپیل وغیرہ)، مخالف وکیل کا نام پتہ فون نمبر،کلائنٹ کا اپنا نام، پتہ اور رابطہ نمبر وغیرہ درج کئے جاتے ہیں۔ عام طور پروکلاء صاحبان کے منشی یہ معلومات لفافے پر لکھتے ہیں لیکن اکثر یہ معلومات مکمل نہیں ہوتیں۔لہذٰا کلائنٹ کو خود چاہیے کہ یہ معلومات اپنے لفافے پر مکمل طور پر تحریر کروائے اور ہر تاریخ کی کاروائی بھی لکھوائے (تا کہ پتا ہو کہ آئندہ تاریخ پر کیا کاروائی ہو گی)۔ مقدمہ بازی کے کسی نہ کسی مرحلہ پر ان تمام معلومات کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ جب کوئی مقدمہ شروع ہو تو اپنے پاس ایک ڈائری رکھ لیں جس میں مقدمہ کی تاریخوں اور کاروائی کا اندراج کرتے رہیں۔ اپنے کیس کی پیروی مکمل توجہ سے کرنا آپ کی اپنی ذمہ داری ہے۔ عام طور پر عدالت میں فریقینِ مقدمہ کی ذاتی حاضری ہر تاریخ پر ضروری نہیں ہوتی، وکیل یا اُس کا منشی خود ہی پیش ہو جاتے ہیں مگر ہو سکتا ہے کہ آپ کا وکیل اور اُس کا منشی کسی دوسری عدالت میں مصروف ہونے کی وجہ سے بوقت آواز عدالت میں آپ کے کیس کیلئے پیش نہ ہو سکیں اس لئے عدالت میں کسی نہ کسی شخص کا موجود ہونا ضروری ہے جو عدالت کی طرف سے کیس کی آواز ہونے کی صورت میں آپ کی طرف سے پیش ہوکر حاضری لگوا سکے اور عدالت کوبتا سکے کہ ہمارا وکیل دوسری عدالت میں ہے کیس کو انتظار میں رکھ لیا جائے یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ میں اپنے وکیل صاحب کو بُلا کر لے آتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ بعض اوقات مخالف وکیل کے نہ آنے کی وجہ سے بھی کیس میں مزید کاروائی ممکن نہیں ہوتی، ایسی صورت میں بھی آپ کے وکیل کا عدالت پیش ہونا ضروری نہیں ہوتا اور فریقِ مقدمہ عدالت سے خود ہی تاریخ لے سکتا ہے ۔ اگر فریقِ مقدمہ کا کسی وجہ سے خود عدالت جانا ممکن نہ ہو تو کسی دوسرے مستعد شخص کو بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ سینئر وکلاء کے ساتھ نئے وکیل بھی کام سیکھنے کیلئے آتے ہیں آپ عدالت میں اپنے مقدمہ کی نگرانی کرنے کیلئے انتہائی معمولی معاوضے پر کسی جونیئر وکیل کی ڈیوٹی بھی لگا سکتے ہیں۔ عدالتیں کیس سنتے وقت ہر تاریخ پر اگلی تاریخ کو ہونے والی کاروائی کے بارے میں لکھتی ہیں لہذٰا جو شخص بھی عدالت جائے آئندہ تاریخ کی کاروائی کا بھی علم رکھے۔ تا کہ کاروائی کے مطابق وکیل اور سائل تیار ہوں۔ عدالت میں بعض اوقات کیس کی باری آنے میں دیر بھی ہو جاتی ہے اس لئے جو شخص بھی جائے ناشتہ ، واش روم وغیرہ سے فارغ ہو کر جائے، عدالت کے باہر اور اندر باری کا انتظار کرتے ہوئے شور شرابا سے گریز کریں اور اپنے موبائل کی گھنٹی بھی بند کر لیں تاکہ عدالت کا کام متاثر نہ ہو۔ بصورت ِدیگر عدالتی وقار کا خیال نہ رکھنے والے شخص کو جج صاحب جرمانہ یا قید کی سزا بھی دے سکتے ہیں۔ کچہریوں میں ایک عام رجحان یہ بھی پایا جاتا ہے کہ وکلاء اور ان کے کلرک کلائنٹ سے خالی کاغذات پر دستخط کروا کے رکھ لیتے ہیں تا کہ کیس چلنے کے دوران کوئی درخواست وغیرہ عدالت میں دینی ہو تو آپ کی عدم موجودگی میں بھی دی جا سکے۔ اس سے آسانی بھی ہوتی ہے کہ محض دستخط کرنے کیلئے وکیل کے دفتر نہیں جانا پڑتا مگر کبھی کبھی اس لاپرواہی کا بہت زیادہ نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ عام طور پر وکلاء ان کاغذات کا غلط استعمال نہیں کرتے مگر یہ ضروری نہیں کہ آپ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہو۔پھر یہ بات بھی ہے کہ وکلاء کے دفاتر سے کاغذات کی چوری کا امکان بھی ہوتا ہے لہذٰا تمام تر احتیاط آپ کے اپنے ذمے ہے کہ’’ اپنا سامان بچائیں، دوسروں کا ایمان بچائیں‘‘اور کوشش کریں کہ کبھی کسی خالی کاغذ پر دستخط کر کے نہ دیں خاص طور پر عدالتی معاملات کے دوران۔ اور یہ احتیاط اس وقت اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتی ہے جب آپ کا کیس زیادہ اہمیت کا حامل ہو۔اس سے آپ کو ذرا زحمت زیادہ ہوگی کہ جب بھی آپ کی طرف سے کوئی کاروائی کرنی ہو گی تو آپ کو دستخط کرنے کیلئے اپنے وکیل کے دفتر جانا پڑے گا لیکن بدلے میں پریشانی اور نقصان سے محفوظ بھی رہیں گے۔
اپنے کیس کے تمام کاغذات محفوظ طریقے سے رکھیں، جو کاغذات وکیل یا کسی بھی دیگر شخص کو دیں ان کی نقول اپنے پاس رکھیں، اپنے کاغذات اپنے کیس والے لفافے میں خود دھیان سے رکھوائیں ، اگر اصل کاغذات دینا ضروری نہ ہو تو اصل کاغذات کی صرف نقول ہی وکیل کو دیں، اور اصل کاغذات صرف عدالتی ضرورت کے وقت دیں جنہیں بعد میں بلا تاخیر واپس لے لیں۔یہ تماشہ بھی کچہری میں دیکھا گیاہے کہ بعض اوقات کسی بددیانتی کے تحت وکیل نے ہی کاغذات واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ مزید یہ کہ آپ کے کاغذات دوسروں کے لئے اتنے اہم نہیں کہ وہ اُن کی حفاظت آپ کی طرح کر سکیں۔ اسی طرح اگر دیکھیں کہ آپ کا مقدمہ زیادہ اہم ہے تو دورانِ سماعت تمام عدالتی کاروائی کی مصدقہ نقول تیار کروا کر محفوظ کرتے جائیں کیونکہ کئی بار یہ بھی ہوا ہے کہ لوگوں نے مخالف فریق کو نقصان پہنچانے کی غرض سے عدالت کی فائلوں سے کاغذات نکال لیے یا اہلکاروں سے مل ملا کر کاغذات بدل ڈالے۔جب بھی مقدمہ کے سلسلے میں کسی وکیل یا کسی دیگر شخص سے ملنے کیلئے جائیں تو مقدمہ سے متعلق تمام کاغذات ساتھ لے کر جائیں۔ مقدمہ جلد بازی میں دائر کروانے کی کوشش نہ کریں، جس طرح ایک مکان بنانا شروع کرنے سے پہلے انسان پوری پلاننگ کرتا ہے یعنی اپنی ضرورت اور جگہ کو سامنے رکھتے ہوئے نقشہ بنوانا، مستری اور مزدوروں کا انتخاب، مٹیریل کی خریداری اور کام کی جگہ پہنچانے کا بندوبست وغیرہ۔ اور جو لوگ اس طرح کی پلاننگ کے بغیر تعمیر شروع کروا دیتے ہیں وہ بعد میں روتے رہتے ہیں کہ یہ کمرہ یہاں بنوانا تھا، یہ باتھ یہاں ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ یہ تعمیر تو پھر بھی بعد میں گرا کر تبدیل کروائی جا سکتی ہے مگر جلد بازی میں دائر کیا گیا کیس زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ بعض اوقات کیس کے مضمون میں تبدیلی کرنا ممکن نہیں رہتا۔ کیس کے بارے میں مشورہ لینے کیلئے وکیل سے ملنے عدالتی ٹائم کے بعد جائیں کیوں کہ عدالتی وقت میں اُس کی توجہ لازمی طور پر عدالت میں زیر سماعت مقدمات کی طرف ہو گی اور وہ آپ کی بات پوری توجہ سے نہیں سُن پائے گا۔ آج کل موبائل کا دور ہے، کوشش کریں کہ پہلے فون پر اطلاع دے کر جائیں یہ آپ اور وکیل دونوں کیلئے سہولت کا باعث ہوگا۔ کیس زیادہ اہم ہو تو اپنے مقدمہ کے حالات بیان کر کے وکیل کو ایک آدھ دن کا وقت دیں تاکہ وہ آپ کے معاملات پر مکمل غور کر کے کوئی بہتر حل تجویز کر سکے۔اکثر وکلاء صرف اس خوف سے کہ کلائنٹ کسی اور وکیل کے پاس نہ چلا جائے یا کیس کرنے کا ارادہ ہی نہ ملتوی کر دے، جلدی جلدی کیس دائر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس طرح کئی بار کیس کے حالات درست بیان نہیں ہو پاتے اور کبھی کبھی بہت اہم حقائق بیان ہونے سے رہ جاتے ہیں۔اسی طرح کیس دائر کرنے سے پہلے یہ دیکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ آپ کیس پہ کیا خرچ کریں گے اور آپ کو کیا بچے گا، یہ نہ ہو کہ پانچ روپے وصول کرتے کرتے پچاس خرچ ہو چکے ہوں، اس حوالے سے اکثر وکلاء درست مشورہ نہیں دیتے کہ ان کو تو فیس ہر صورت میں مل ہی جانی ہے۔
ہمارے سست عدالتی نظام کی وجہ سے بھی اکثر لوگ گھبرا جاتے ہیں اور اپنے وکیل کو نالائق سمجھتے ہوئے بار بار وکیل تبدیل کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے وقت اور پیسے کا زیادہ ضیاع ہوتا ہے۔یاد رہے کہ فوری رزلٹ بہت کم کیسز میں ملتا ہے۔عدالتوں میں کیسز کا بہت زیادہ رش ہے اور ساتھ ہی عدالتی نظام سست ہونے کی وجہ مقدمات بہت سست رفتاری کے ساتھ چلتے ہیں۔فوجداری مقدمات میں اکثر لوگ ضمانت کی سطح پر ہی اپنی تمام توانائیاں خرچ کر کے تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں اور اصل کیس یعنی کہ چالان پر زور ہی نہیں دیتے اور عدالتوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں حالاں کہ ضمانت ہو جانے کے باوجود اصل مقدمہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لہٰذا مقدمہ کی پیروی صبر و تحمل کے ساتھ کریں، اور گر آپ کا وکیل محنت اور ذمہ داری کے ساتھ کام کر رہا ہے تو اس کے ساتھ دیر سویر کے اس حوالے سے بحث و تکرار سے گریز کریں۔ کئی ایک معاملات عدالتی صوابدید پر منحصر ہوتے ہیں اور ان میں ناکامی کو لوگ وکیل کی نالائقی تصور کر لیتے ہیں، مثلاً کسی مقدمہ میں حکمِ امتناعی نہ ملنا یاکسی کیس میں ملزم کی ضمانت نہ ہونا، اس طرح کی ناکامیاں عارضی ہوتی ہیں اور اِن سے اصل مقدمہ کا فیصلہ متاثر نہیں ہوتا۔اسی طرح کئی جج بد دیانتی سے یا کسی غلط فہمی کی بنا پر حقائق کے بر عکس فیصلہ کر دیتے ہیں، اِس کو بھی درست کروایا جا سکتا ہے بشرطیکہ کیس تحریر کرنے اور شہادت وغیرہ کروانے میں وکیل نے غلطیاں نہ کیں ہوں۔ یہاں پر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ عدالتی نظام کی سستی سے مراد ججوں کی طرف سے سستی یا تاخیر نہیں بلکہ اس قانون کی خرابی مراد ہے جس کے تحت عدالتیں کام کرتی ہیں( یعنی ضابطہ جاتی قانون)، ضابطہ دیوانی، ضابطہ فوجداری، قانونِ شہادت وغیرہ۔ اور اِن قوانین کے نقائص دور کرنا قانون ساز اسمبلیوں کا کام ہے مگر بدقسمتی سے ہماری قومی و صوبائی اسمبلیوں نے کبھی بھی اِس طرف توجہ نہیں دی۔
تمہی نے درد دیا ہے، تمہی دوا دینا
ایک دفعہ ایک بوڑھی عورت عدالت میں داخل ہوئی اور جج صاحب سے مخاطب ہوئی، ’’ بیٹا! میرے کیس کے کاغذات مجھے واپس کر دو، تھانیدار نے کہا ہے کہ میں عدالت سے کاغذات واپس لے آئوں تو وہ میرا کام کر دے گا۔جج صاحب اور عدالت میں موجود دیگر لوگ اُس عورت کی سادگی پر ہنسنے لگے۔ لیکن اُس بیچاری کو تو تھانیدار نے ہی یہ راہ سجھائی تھی۔
اکثر لوگ فوجداری مقدمات کے حوالے سے پولیس کو ہی سب کچھ سمجھ لیتے ہیں ، حالانکہ جو مقدمات پولیس بناتی ہے (یعنی جن مقدمات کی مستغیث پولیس خود ہو)ان میں پولیس کسی ملزم کو کیسے رعایت دے سکتی ہے۔مثلاً منشیات کے کیس، جوئے کے کیس، امن و امان سے متعلقہ کیسز وغیرہ۔ان مقدمات کی ایف آئی آر میں پولیس خود مستغیث ہوتی ہے اور اپنے ہی بنائے ہوئے کیس کو کوئی کیسے جھوٹا قرار دے گا۔ اگر کوئی تھانیدار ایسا کرے تو وہ خود پھنس جائے گا اور اسے پوچھا جائے گا کہ اگر ملزم بے گناہ تھا تو تم نے جھوٹا پرچہ کیوں درج کیا۔لوگ سادہ لوحی میں ایسے معاملات کیلئے بھی پولیس سے ہی رابطہ کرتے ہیں اور مزید پھنستے چلے جاتے ہیں بہت اہم بات جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ پولیس کیلئے ہر شخص، ہر کیس سے زیادہ اہم اُس کی ملازمت ہے اور وہ اپنی ملازمت کو محفوظ رکھنے کیلئے کچھ بھی کر گذرے گا۔ اسی طرح دیگر سرکاری ملازمین کیلئے بھی یہی فارمولا ہے۔ مگر اچھے اور قابل وکیل کیلئے اپنا کلائنٹ اور اُس کا مفاد اہم ہوتا ہے۔لہٰذا یک سمجھدار، محنتی اور دیانتدار وکیل سے بر وقت مشورہ ہی آپ کے مفادات کے تحفّظ کا ضامن ہے۔
Comments
Post a Comment