کچہری میں لُٹنے کی وجوہات

کچہری میں لُٹنے کی وجوہات
 وکیل سے اپنے کیس کے حالات کے مطابق مشورہ لینے کیلئے ملیں، نہ کہ اپنی پسند کا مشورہ لینے کیلئے۔کئی بار یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگوں نے اپنے کیس کے بارے میں ایک خواب دیکھ رکھا ہوتا ہے اور چاہتے ہیں کہ مشورہ دینے والا وکیل اس کی من پسند تعبیر بنا دے۔ چونکہ کچہری میں پائے جانے والے لوگوں کی اکثریت ہی خواب فروشوں کی ہے اور لوگ اپنے لٹنے کا سامان گھر سے کر کے چلتے ہیں تو بچیں گے کیسے؟ کبھی کبھی تو ذہن میں آتا ہے کہ وکلاء کلائنٹ کے ساتھ جو کچھ کرتے ہیں، یہ لوگ ہیں ہی اسی قابل ،یہ لوگ مقدمہ بازی شروع کرنے سے پہلے، یا وکیل منتخب کرتے وقت ذرا بھی نہیں سوچتے اور نہ ہی کسی احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ وکیل کو اپنی خواہشات بیان کرنے کی بجائے اپنے کیس کے حالات بتا کر مشورہ حاصل کیا جائے۔اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ وکیل کے پاس پہنچتے ہی کہتے ہیں کہ میرا کیس اِس طرح کرنا ہے اور وکیل فیس لینے کیلئے ان کی خواہش کے مطابق کیس دائر کر دیتے ہیں ۔ اور ایسا کرتے وقت مقدمہ کے حالات و واقعات کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے جس سے عارضی فائدہ تو حاصل ہو جاتا ہے مگر حقیقت سامنے آنے پر پورا مقدمہ ہی ہار جاتا ہے اور پھر وکیل کہتا ہے کہ تم نے خود ہی ایسے کرنے کو کہا تھا۔ایک عام رجحان یہ بھی پایا جاتا ہے کہ کلائنٹ کو پہلے مقدمہ کے حوالے سے بہت زیادہ ڈرایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ گھبرا جاتا ہے اور پھر اس سے رقم لوٹنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ اور ایسا کرنے کی غرض سے کوشش کی جاتی ہے کہ تمام کام جلدی جلدی کیے جائیں تا کہ شکار کو معاملات کی سمجھ ہی نہ آئے اور وہ کہیں چکر بازی کو سمجھ ہی نہ جائے۔ اور جب تک بندے کو سمجھ آتی ہے وہ لُٹ کے فارغ ہو چکا ہوتا ہے جس کے بعد وہ سارے عدالتی سسٹم کی برائیاں کرتا ہے اور سب وکیلوں کو گالیاں دیتا ہے۔کچھ لوگ خود بھی دھوکہ کھانے کے موڈ میں ہوتے ہیں اور اس بات پر غور ہی نہیں کرتے کہ سامنے والا شخص (وکیل) جو دعویٰ کر رہا ہے اس دعویٰ میں کتنی سچائی ہو سکتی ہے۔ اس بات کی وضاحت ایک واقعے سے کرنا چاہوں گا کہ ایک شخص کے خلاف چوری کے دو مقدمات تھے اور وہ جیل میں بند تھا ، اس کا بھائی اس کی ضمانت کروانے کیلئے وکیل سے ملا، ایک مقدمہ میں تو اسکی صلح ہو چکی تھی اور مستغیث مقدمہ ملزم کے حق میں بیان دینے کیلئے تیار تھاجب کہ دوسرے مقدمہ کی ایف آئی آر ہی ملزم کا بھائی ساتھ نہ لایا تھا،وکیل صاحب نے ملزم کے بھائی سے فوراً کہا کہ فیس دو آج ہی دونوں کیسز میں ضمانت کروا دیتا ہوں، صلح والے کیس کی حد تک تو یہ بات مانی جا سکتی تھی کہ مستغیث بیان دینے کیلئے تیار تھامگر دوسرے کیس کے بارے میں کیا کہا جائے جس کی ایف آئی آر ہی وکیل صاحب نے نہ دیکھی اور بڑھک مار دی۔ یہ تو ایسے یہ ہو گیا کہ کوئی ڈاکٹر مریض کو دیکھے اور سنے بغیر ہی دعویٰ کر دے کہ میں مریض کو صحت یاب کر سکتا ہوں۔ اور اکثر لوگ ایسی بڑھکیں سننا پسند بھی کرتے ہیں۔نتیجتاً وکلاء میں ایسی بڑھکیں لگانے کا رجحان بہت زیادہ فروغ پا چکا ہے،اس طرح کی بڑھکیں سن سن کر کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر کوئی کلائنٹ وکیل سے کہے کہ ایک لاش میں اللہ تعالیٰ سے کہہ کر جان ڈلوانی ہے، کیا آپ کوئی مدد کر سکتے ہیں تو وکیل کا جواب ہو گا کہ ابھی اللہ کو یہیں بلواتا ہوں اور ادھر ہی اللہ جان ڈال کے جائے گا، بس آپ فیس ادا کریں۔ وکیل یہ بھی نہیں کہے گا کہ اللہ تعالیٰ کی منت سماجت کروں گا اور کام ہو جائے گا۔

Comments

Popular posts from this blog

مشورہ کس سے اور کیسے کیا جائے؟

مقدمہ کے مختلف مراحل و طریقہ کار

تعارف