عدالت میں سفارش اور رشوت

عدالت میں سفارش اور رشوت
تم فرما دو کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں، اگرچہ ناپاک کی کثرت تجھے اچھی لگے۔سورۃ ۵ المائدہ آیت۱۰۰
 کچھ احباب سفارش پر زیادہ یقین رکھتے ہیں اور کیس کے ہر مرحلے پر سفارش کے چکر میں رہتے ہیں سفارش کروانے کے حوالے سے ایک بات یہ بھی یاد رکھنے والی ہے کہ کیس کو سماعت کرنے کیلئے جو ضابطہ جاتی قانون عدالتوں پر لاگو ہوتا ہے، جج اُس قانون کو نظر انداز کر کے کسی کیس کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔جج چاہے یہ واضع طور پر جانتا بھی ہو کہ مقدمہ جھوٹا ہے، پھر بھی وہ قانونی تقاضے پورے کیے بنا مقدمہ کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ جج کوجس وقت بھی سفارش کروائی گئی جج اسی وقت ان کی مرضی کا فیصلہ صادر کر دے گا۔ اس کی مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے کہ جب بھی کوئی کیس عدالت میں دائر کیا جاتا ہے تو وہ کیس جس جج کے پاس سماعت کیلئے جاتا ہے اُس کا پہلا کام اُس شخص کو بلانا ہے جس کے خلاف کیس دائر ہوا ہو، اب چاہے جج کو ذاتی حیثیت میں پتا بھی ہو کہ کیس جھوٹا ہے پھر بھی وہ اُسے ختم نہیں کر سکتا۔ اُس نے ہر حال میں قانون میں درج طریقہء کار کے مطابق ہی کاروائی کرنی ہوتی ہے۔اور اس بات سے لوگ سمجھتے ہیں کہ عدالت ایک جھوٹا کیس بلا وجہ چلائے جا رہی ہے۔ جب وہ شخص جس کے خلاف کیس دائر ہوا ہو عدالت میں پیش ہو کر بتائے کہ میرے خلاف کیس جھوٹا ہے تب بھی عدالت کیس کو ختم نہیں کر سکتی اور عدالت کیس کا جواب مانگتی ہے اور اس کے بعد فریقین کی شہادتیں ہوتی ہیں اور پھر کہیں جا کر کیس فیصلے کے قریب پہنچتا ہے۔ اور اگر کسی فریق کے پاس مقدمہ کے جھوٹا ہونے کا مکمل ثبوت بھی ہو تو پھر بھی اُس ثبوت کو عدالت میں پیش کرنے کیلئے ایک خاص طریقہ متعین ہے، جس کی پابندی لازم ہے۔(اعلیٰ عدالتوں میں کیسز کی سماعت کا طریقہء کار تھوڑا مختلف ہے)
اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست سے وابستہ یا اثرورسوخ والے لوگ عدالت سے فائدہ حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ یہ بات ایک حد تک درست ہے بھی مگر ایسا فائدہ صرف ان لوگوں کے خلاف حاصل ہو سکتا ہے جن کے وکیل اپنا کیس اچھی طرح عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہتے ہیں، یعنی یہاں بھی اگر کوئی نقصان ہوتا ہے تو وکیل کی نالائقی کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔ بعض چھوٹے موٹے معاملات میں جج سفارش کی بنیاد پر کچھ عارضی فوائد دیتے بھی ہیں۔ایسے ہی عدالتوں میں رشوت بھی چلتی ہے مگر زیادہ تر فراڈ ہی ہوتا ہے۔لوگ رشوت کا پیسہ اس شرط پہ لے لیتے ہیں کہ کام نہ ہونے کی صورت میں پیسے واپس کر دیے جائیں گے۔ چونکہ کسی نہ کسی فریق کے حق میں تو فیصلہ ہوناہی ہوتا ہے، لہذٰا اگر فیصلہ رشوت دینے والے کے حق میں ہوگیاتو رشوت لینے والا کہہ دیتا ہے کہ میں نے جج کو پیسے دے کر فیصلہ تمھارے حق میں کروایا ہے اور اس طرح پیسہ ہضم۔اور اگر فیصلہ رشوت دینے والے کے حق میں نہ ہو سکے تو پیسے واپس اور ساتھ کسی مجبوری کا بہانہ سُنا دیا جاتا ہے۔ اس صورت میں بھی رقم واپس کرتے وقت کچھ نہ کچھ پیسہ اخراجات
کے نام پر مار لیا جاتا ہے۔کئی دفعہ تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ دونوں طرف سے پیسے پکڑ لیے گئے اور جس فریق کے حق میں فیصلہ نہ ہوا اس کی رقم واپس اور دوسرے کی ہضم یعنی دلال کو تو یقینی کامیابی مل گئی۔کئی دلال تو رقم ہی دبا جاتے ہیں چاہے کام ہو یا نہ ہو۔اور پھر رقم کی واپسی کیلئے ایک نیا مقدمہ شروع ہو جاتا ہے۔
جو راہ پر آیا اپنے ہی بھلے کو آیا، اور جو بہکا تو اپنے ہی بُرے کو بہکا، اور کوئی بوجھ اُٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گی۔ سورۃ ۱۷ بنی اسرائیل آیت ۱۵

Comments

Popular posts from this blog

مشورہ کس سے اور کیسے کیا جائے؟

مقدمہ کے مختلف مراحل و طریقہ کار

تعارف