وکیل کا انتخاب اور فیس

حکمتِ عملی قوتِ بازو سے زیادہ کام کرتی ہےوکیل کا انتخاب اور فیس
قانونی مشاورت اور مدد کے حوالے سے وکیل کا انتخاب بہت ہی اہم مرحلہ ہے اور بہت سارے لوگ اسی مرحلے پر غلطی کر جاتے ہیں جس کے نتیجے میں نقصان اُٹھاتے ہیں۔ اکثر لوگ رو رہے ہوتے ہیں کہ وکیل نے ہمارے ساتھ یہ کر دیا، وکیل نے ہمارے ساتھ وہ کر دیا، وکیل نے ہمارے کیس کا بیڑہ غرق کر دیا۔اب کوئی اِن سے پوچھے کہ وکیل کا انتخاب کس نے کیا تھا؟ آپ کیلئے وکیل اُوپر سے تو نہیں اُتارا گیا تھا؟ کیس کسی نالائق وکیل کے سپرد کرنا ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی اندھے کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا کر منزل پر پہنچنے کا سوچ رہے ہوں۔ عدالتوں میں ایک ضرب المثل بہت مشہور ہے کہ،
 ’’جج کا سزا کیا ہوا بندہ تو بری ہو سکتا ہے مگر وکیل کا سزا کروایا ہواشخص بری نہیں ہو سکتا‘‘
 قانون بھی یہ ہی ہے کہ عدالت کی غلطی تو درست کروائی جا سکتی ہے لیکن وکیل کی غلطی کا ذمہ دار کلائنٹ خود ہوتا ہے۔وکیل کی نالائقی دو طرح کی ہو سکتی ہے۔ :1کیس کے مطابق قانون کا صحیح طور پر علم نہ ہونا۔ :2 مقدمہ کے حقائق جاننے کی کوشش نہ کرنا۔متذکرہ دونوں صورتیں ہی کیس کیلئے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ قانون کے حوالے سے تیاری تو مکمل طور پر وکیل کی ذمہ داری ہے تاہم مقدمہ کے حالات و واقعات کے بارے میں کلائنٹ کافی مدد کر سکتا ہے، مگرپھر بھی یہ وکیل کا ہی کام ہے کہ وہ کیس سے متعلقہ کار آمد معلومات سائل سے خود اگلوانے کی کوشش کرے کیونکہ اکثر کلائنٹ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ کون سی بات کیس کیلئے اہم اور مفید ہے۔ وکیل کے انتخاب کے حوالے سے یہ بات بھی بہت ضروری ہے کہ ایسا وکیل منتخب کرنے سے بھی گریز کیا جائے جو بہت زیادہ مصروف ہو چاہے وہ زیادہ قابل یا نامور ہی کیوں نہ ہو کیونکہ زیادہ مقدمات میں مصروف ہونے کی وجہ سے وہ آپ کے کیس کو ضروری وقت نہیں دے پائے گاجس سے نقصان ہونے کا اندیشہ ہے اور اگر نقصان نہ بھی ہو تو مقدمہ کے فیصلہ میں دیر تو ضرور ہو گی۔ اسی طرح سیاست (لوکل سیاست یا وکلاء کی سیاست) سے وابستہ کچھ وکلاء بھی اپنی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے وکالت پر مکمل توجہ نہیں دے پاتے۔  ایک ایسا وکیل جو قابل اور محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ فارغ بھی ہو تلاش کرنا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ ہر شہر کی عدالتوں میں بہت سے وکلاء موجود ہیں جو اگرچہ زیادہ شہرت نہیں رکھتے مگر بہت محنتی اور قابل ہیں، ایسے کسی بھی وکیل کو ڈھونڈ کر کم وقت میں زیادہ اچھا رزلٹ حاصل کیا جا سکتا ہے۔یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا بھی ضروری ہے کہ تمام عدالتی معاملات میں بہت زیادہ قابل وکیل کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، کافی سارے معاملات میں اوسط درجے کے وکیل کی مدد سے کام چلایا جا سکتا ہے۔ وکیل کا انتخاب کرتے وقت لوگوں کے ذہن میں وکیل کے معاوضے کی بات بھی ہوتی ہے، اور اس بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ
’ـ’سستی چیزیں اچھی نہیں ہوتیں اور اچھی چیزیں سستی نہیں ہوتیں‘‘
 یعنی قابل وکیل کا معاوضہ لازمی طور پر زیادہ ہی ہو گا تاہم اس بات کو ہم حتمی فارمولا بھی نہیں بنا سکتے مگر پھر بھی یہ بات 90 فیصد درست ہی ہے۔اگر آپ خود کسی قسم کی خدمات معاوضہ پر فراہم کرتے ہیں تو آپ کیلئے فیس کے معاملے کو سمجھنا آسان ہو گا، کہ کوئی بھی کام محنت اور دیانتداری سے کرنے والے شخص کا معاوضہ کیا ہونا چاہیے۔ اور ذہن میں اِس بات کو بٹھا لیں کہ اگر کسی قابل وکیل کو معقول معاوضہ نہ ملا تو وہ آپ کے کام کو بوجھ سمجھے گا، اور محض وقت گذاری ہی کرتا رہے گا۔ مقدمہ بازی میں پھنسے لوگوں کا واسطہ تھانے سے یا عدالت سے ہوتا ہے، پولیس ملازم کام کا بوجھ زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر صحیح طور پر کام نہیں کر پاتے ااور کئی ملازمین لاپرواہی بھی کرتے ہیںجس کا نقصان بھی فریقینِ مقدمہ کو ہی پہنچتا ہے۔ اسی طرح بعض جج صاحبان بھی توجہ سے کام نہیں کرتے اور غلط حکم لکھ مارتے ہیں جسے بھگتنا تو متاثرہ فریق کو ہی پڑتا ہے۔قابل وکیل کی کیس کے ہر مرحلہ پر گہری نظر ہوتی ہے اوروہ غلطیوں کو موقع پر ہی درست کروا لیتا ہے جس سے زیادہ ادا کی گئی فیس کا بدل بھی مل جاتا ہے۔ بصورتِ دیگر بندہ عدالتِ اپیل اور عدالتِ ٹرائل میں گھومتا رہ جاتا ہے۔عدالتِ اپیل (ہائیکورٹ)چونکہ اکثر دور ہوتی ہے نتیجتاً اخراجات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں غیر ضروری تکلیف بھی اُٹھانا پڑتی ہے اور وقت کا بہت زیادہ ضیاع بھی ہوتا ہے۔ عدالتوں میں فیصلے شہادتوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور فیصلہ کرتے وقت عدالتیں مضبوط شہادت دیکھتی ہیں، اگر وکیل قابل ہو تو وہ ایک کمزور شہادت والے کیس کو بھی اپنی محنت سے کامیابی تک لے جا سکتا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

مشورہ کس سے اور کیسے کیا جائے؟

مقدمہ کے مختلف مراحل و طریقہ کار

تعارف